تحریر : نوید اشرف خان
آج پاکستان کی تاریخ کا ایک اندوہناک سانحہ سوات کی سرزمین پر وقوع پذیر ہوا جہاں ڈسکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک سیاح خاندان دریاء سوات میں آنیوالے اچانک ریلے کی نظر ہوگیا ۔۔اطلاعات کے مطابق بارہ سے سولہ کے قریب افراد اس حادثہ کا شکار ہوئے ہیں ۔۔حتمی تعداد کا تعین مکمل تفصیلات آنے پر ہی ممکن ہوسکے گا ۔۔
حادثے کا شکار خاندان دریا کے کنارے پر تھوڑا پانی کے اندر دریاء کی ہلکی پھلکی لہروں سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ دریاء میں پانی کا ریلا آگیا ۔۔جو دیکھتے ہی دیکھتے اس حد تک زیادہ ہوگیا کہ ان افراد کا وہاں سے نکلنا پہلے مشکل اور پھر ناممکن ہوگیا ۔۔جس چھوٹے سے ٹیلے پر وہ افراد کھڑے تھے وہ بھی دریاء کے ریلے کی وجہ سے کٹاؤ کا شکار ہوا اور پھر تمام افراد بغیر کسی امدادی کاروائ کے حسرت زدہ آنکھوں سے کنارے پر کھڑے افراد کو دیکھتے ہوئے موت کے اس ریلے کے ساتھ بہہ گئے ۔۔۔
اس حادثہ کے بعد مجھ سمیت بہت سے افراد سوشل میڈیا پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق جذبات کا مختلف انداز میں اظہار کررہے ہیں ۔۔کچھ انتظامیہ کو کوس رہے ہیں ، کچھ کنارے پر کھڑے افراد پر لعن طعن کررہے ہیں ،کچھ وڈیو بنانیوالوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کچھ سیاحوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ پانی کے رویے سے ناآشنا تھے تو پانی میں کیوں اترے ۔۔
یاد رکھیں پانی مقامی یا غیر مقامی کا فرق نہیں جانتا ۔۔اگر آپ کو یاد ہو تو 2022 میں دیر میں آنیوالے سیلابی ریلا میں مقامی نوجوان حادثہ کا شکار ہوئے تھے ۔۔ان تک رسے بھی پہنچ گئے اور جوان بھی تگڑے تھے لیکن پانی کے تیز ریلے کا مقابلہ نہ کرسکے اور جان کی بازی ہار گئے ۔۔۔
پہاڑی علاقوں میں موجود ندی ،نالوں اور دریاؤں سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ بارش کے ایام میں ان سے دور رہا جائے ۔۔اب ممکن ہے کہ جہاں یہ حادثہ ہوا وہاں بارش نہ ہورہی ہو یا ہلکی پھلکی بوندا باندی ہورہی ہو ۔۔۔
تو پھر یہ تیز سیلابی ریلا آیا کیسے ۔۔؟
صورتحال کو زرا سمجھیں ۔۔۔دریاء سوات کی ابتداء مختلف جھیلوں سے آتے پانی سے ہوتی ہے جو اس حادثہ کے مقام سے سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کی مسافت پر ہیں ۔۔مہوڈنڈ کی جانب سے پانی آتا ہے جو کالام کے مقام پر خڑخڑی ، کنڈول ،سپین خور واندراب جھیل وشاہی باغ سے آتے پانی سے مل کر ایک بڑے دریا میں تبدیل ہوجاتا ہے جس میں راستے میں چھوٹے چھوٹے چشمے ملتے رہتے ہیں ۔۔بحرین کے مقام پر اس میں گودڑ جھیل سے آتا پانی ملتا ہے ۔۔۔یاد رکھیں یہ تمام ندی نالے اپنی ذاتی حیثیت میں عام ایام میں بھی اتنی طاقتور طغیانی رکھتے ہیں کہ ان میں اترنا یا ان سے کھیل کود کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔۔گذشتہ دنوں شاہی باغ کشتی حادثہ سب کو یاد ہوگا ۔۔۔جبکہ شاہی باغ والا پانی دریاء سوات کا شاید پانچ یا دس فیصد ہوگا ۔۔۔
اب ضروری نہیں کہ جہاں ہم موجود ہیں وہاں طوفانی بارش ہو اور دریا چڑھے ۔۔سینکڑوں میل پیچھے ہماری نگاہوں کی رسائی سے بھی دور کہیں طوفانی بارش ہورہی ہوتی ہے ۔۔کہیں کوئ بڑا گلیشیر ٹوٹ کر دریاء میں گررہا ہوتا ہے ۔۔کہیں بادل پھٹ رہا ہوتا ہے ۔۔۔تو یہ سب عناصر طغیانی کو لیکر اپنے ماخذ سے سفر شروع کرکے آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں۔۔اب ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارا نظام اتنا مضبوط ہو کہ ایسے کسی بھی واقعی کی اطلاع اس دریا ء کے کنارے پر موجود تمام آبادیوں تک فورا پہنچ جائے ۔۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسا انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں اور اگر ہو بھی تو بعض اوقات سینکڑوں میل تک ہر جگہ اطلاع پہنچانا ممکن بھی نہیں ہوتا ۔۔
ایسے ہی ایک سیلابی ریلے کی نظر آج سیالکوٹ ڈسکہ کا خاندان بھی ہوا ۔۔۔خوش گپیوں میں مصروف یہ خاندان اچانک آنیوالے سیلابی ریلے کی زد میں اگیا ۔۔لیکن یہ ریلا جائے حادثہ سے میلوں دور سے چلا تھا ۔۔ممکن ہے سو میل سے بھی زیادہ دور سے چلا ہو ۔۔۔جائے حادثہ سے بھی یہ تباہی پھیلاتا ہوا ایک آدھ گھنٹے میں گزر گیا ہوگا ۔۔اپنے پیچھے ایک بھیانک داستان چھوڑتے ہوئے ۔۔۔
اس لیے بارشوں کے اس موسم میں ندی نالوں کے قریب جانے سے انتہائ خبردار رہیں دوسال قبل رتی گلی ندی میں ہونیوالا حادثہ بھی سب احباب کو یاد ہوگا ۔۔جہاں دور اوپر پہاڑ پر کہیں بادل پھٹا تھا اور بیس کلو میٹر نیچے موجود سیاح ندی میں طغیانی کی نظر ہوگئے ۔۔۔
انتظامیہ ذمہ دار ہوگی ۔۔۔
امداد بھی بروقت نہ پہنچ سکی ۔۔۔
سیاحوں کی بھی غلطی موجود ہے ۔۔۔
لیکن ہمیں ان حادثات سے سیکھنا ہوگا ۔۔۔انتظامیہ کو ہنگامی حالات کو سنبھالنے کے لیے فوری ردعمل والے تربیت یافتہ افراد کے عملہ کی ضرورت ہے ۔۔ایسی صورتحال میں بروقت اطلاع دریاء کنارے موجود ایک ایک گھر تک پہنچانے کے لیے نظام بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔انتظامیہ کو اس حادثہ سے سبق لیتے ہوئے اپنی خامیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے حادثات سے بچا جاسکے ۔۔۔
لیکن سب سے بڑی ذمہ داری ہم سیاح حضرات کی ہے ۔۔خصوصا جو لوگ میدانی علاقوں سے جاتے ہیں وہ ان پہاڑی ندی نالوں اور دریاؤں کے مزاج سے بالکل واقف نہیں ہوتے ۔۔سیلفی ، کھیل کود ،عکس بندی اور دیگر مشاغل میں مصروف ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ دریاء آج تک کسی کے سگے نہیں ہوئے ۔۔نہ مقامیوں کے اور نہ غیر مقامیوں کے ۔۔۔برسات کے ان ایام میں ان دریاؤں کے قریب یا کنارے پر بالکل مت جائیں اور نہ بچوں کو جانے دیں ۔۔بلکہ برسات نہ بھی ہو تو شدید گرمی میں بھی دور بہت دور موجود جھیلیں اور گلیشیر گرمی کی شدت سے کسی بھی وقت پھٹ کر دریاء میں طغیانی اور سیلابی ریلے کا سبب بن سکتے ہیں ۔۔۔
اور آخر میں ایک اپنے ذاتی تجربہ کی بات بھی عرض کردوں ۔۔۔جب بھی گھر سے نکلیں دو نفل پڑھ کر خود کو اور اپنے ساتھ موجود دیگر افراد کو رب کے سپرد کرتے ہوئے دعاء کریں کہ یا اللہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں جیسے آج میں خاندان اور دوستوں کے ساتھ جارہا ہوں اسی طرح بحفاظت میرے واپس آنے کا سبب بھی بنا دیں ۔۔۔سب طاقت آپ کے ہی پاس ہے ۔۔۔شامل سفر دیگر حضرات کو بھی تاکید کریں کہ گھر سے نکلتے یہ آخری عمل ضرور کریں ۔۔اور اگر کوئ اور نہ بھی کرے تو خود ضرور کریں ۔۔اور سب کی بخیریت واپسی کی دعاء کریں ۔۔ اللہ کریم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں ۔۔آمین



