عابد حسین قریشی
کہتے ہیں کہ زمانہ استاد ہے اور انسان ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ مگر آج کا انسان شاید زمانہ کا بھی استاد ہے۔ ہمارا بچپن اور زمانہ طالب علمی استاد کے احترام اور خوف میں گزرا۔ اس زمانہ میں” مولا بخش” بھی چل جاتا تھا اور ہاتھ بھی۔ شاگرد باادب ہو کر سب سہہ جاتے۔ ہم روایتی طریقہ تدریس کے شاگرد تھے۔ جبکہ آج کا طالب علم کمپیوٹر، نیٹ، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل سہولیات سے لیس، روایتی استادی شاگردی کے جھنجھٹ سے آزاد ہوچکا۔ شاید یہی وجہ ہے، کہ آج ہم تعلیم کو عام ہوتے تو دیکھ رہے ہیں، مگر تربیت کا فقدان ہر سو رقصاں ہے۔ لوگ تعلیم کو ڈگریوں میں دیکھتے اور جانچتے ہیں، میرے خیال میں یہ تربیت میں پنہاں ہے۔ کیونکہ ڈگری کسی تہزیب و نفاست اور عقل و فہم کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اخلاقیات، ادب، اور فراست کے لئے کسی باضابطہ ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر بہت سی تعلیمی ڈگریوں اور اسناد کے باوجود کہیں اخلاقیات کی کمی نظر آئے، تو تعلیم کی بجائے تربیت پر غور کیا کریں۔ ہماری ساری ترقی ہماری تربیت اور رکھ رکھاو کو کھا گئی۔ ہم تعلیمی میدان میں معرکے سر کرتے کرتے اخلاقی طور پر بانجھ پن کی طرف گامزن ہیں۔ ہمارا سارا فوکس تعلیم اور ظاہریت پر ہے، مگر حاصل زندگی اچھی تربیت اور اخلاقیات ہے۔ آج کا نوجوان اگر مزہب سے دور ہو رہا ہے، تو اسکی وجہ مزہب تو نہیں ہو سکتی، البتہ مذہبی لوگوں کے بے لچک رویے اور تضادات ہو سکتے ہیں، وہ اگر استاد کے رشتہ تقدس سے آگاہ نہیں ہو سکا، تو موجودہ دور کی تعلیمی درس گاہوں کو کمرشل اداروں میں تبدیلی اس کی وجہ ہو سکتی ہے، وہ اگر اپنے ارد گرد کے ماحول سے دلبرداشتہ ہے، تو ہماری نسل کے بزرگوں کے قول و فعل کے تضادات سے اسے چڑ ہو سکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لئے بھی ممکن ہے، کہ جب کسی معاشرہ میں محبت و شفقت، نفرت و شقاوت میں اور ایثار و اخلاص، بے مروتی اور لالچ میں تبدیل ہو جائیں تو نوجوانوں کا باغی ہونا سمجھ میں آجانا چاہیے۔ انسان کی سب سے اولین تربیت گاہ اسکا گھر ہوتا ہے، مگر ہم نے تو گھروں کو بھی بیڈ رومز میں بدل دیا ہے، اور آپسمیں گپ شپ یا بچوں کے ساتھ کچھ تجربات شیئر کرنے کی بجائے ہم شاید مذہبی فریضہ کے طور پر اپنے اپنے سیل فونز پر نظریں جمائے گرد و پیش سے بے خبر اس انہماک بلکہ استغراق سے محو ہوتے ہیں، کہ ہمیں اہل خانہ یا اپنے بچوں سے گپ شپ یا انکی تربیت کا ہوش ہی کہاں۔ نہ اپنی خبر نہ گردو پیش کی، نیٹ اور سوشل میڈیا میں گو ڈے گوڈے غرق ہمیں یہ تو خبر نیٹ اور سوشل میڈیا سے مل رہی ہوتی ہے، کہ دنیا کے کسی دور دراز کونے میں کونسا کام یا حرکت ہو رہی ہے، جو ہماری دلچسپی کا باعث بن رہی ہے، مگر اسی چھت کے تلے نہ بچوں کی اور نہ بزرگوں کی خبر ہوتی ہے۔ بزرگوں کا institution تو ہم نے کب کا متروک کر دیا۔ سوشل میڈیا کے اس عفریت میں ہم اپنے خاندانی نظام کی تباہی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں اور اصلاح احوال کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔
تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے



