ننجنگ کا قتلِ عام (دسمبر 1937 – جنوری 1938) انسانی تاریخ کے سب سے وحشیانہ اور منظم جنگی جرائم میں سے ایک ہے۔ جب 13 دسمبر 1937 کو جاپانی شاہی فوج نے چین کے اس وقت کے دارالحکومت ننجنگ پر قبضہ کیا تو اگلے چھ ہفتوں میں جو کچھ ہوا، اسے “ننجنگ کا قتلِ عام” (Nanjing Massacre) یا “ننجنگ کی زیادتی” (Rape of Nanjing) کہا جاتا ہے۔ یہ محض ایک فوجی قبضہ نہ تھا بلکہ ایک منظم بربریت تھی جس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا۔
ہلاکتوں کی تعداد
چینی حکومت اور زیادہ تر بین الاقوامی مورخین کے مطابق 300,000 سے زائد شہری اور غیر مسلح فوجی ہلاک ہوئے۔ ٹوکیو ٹرائلز (1946-48) نے سرکاری طور پر 200,000 سے زائد ہلاکتوں کو تسلیم کیا۔ آزاد ذرائع (Iris Chang، International Safety Zone Committee، عینی شاہد جان رابے، منیہ شیگمیتسو وغیرہ) بھی 200,000–350,000 کے درمیان اعداد دیتے ہیں۔ جاپان کے کچھ قدامت پسند مورخین آج بھی 40,000–100,000 تک کی کم تعداد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن یہ دعوے عالمی سطح پر مسترد کیے جا چکے ہیں۔
جنسی جرائم کی ہولناکی
اندازاً 20,000 سے 80,000 خواتین و لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں کی گئیں (چینی ریسرچ: 80,000+، Iris Chang: 20,000–80,000)۔ عمر کی کوئی حد نہ تھی: 11–12 سال کی بچیوں سے لے کر 70–80 سال کی بزرگ خواتین تک سب شکار ہوئیں۔ بہت سی عورتوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا، کئی کو زندہ جلایا گیا یا نیزوں سے چھلنی کیا گیا۔ جاپانی فوجیوں نے “ریس باؤلنگ” (تلوار سے سروں کاٹنے کے مقابلے)، “زندہ دفن کرنے”، “آگ سے کھیلنے” جیسے کھیل کھیلے۔
معتبر ذرائع اور ثبوت
1. عینی شاہدین
جان رابے (John Rabe) – جرمن نازی پارٹی ممبر اور Siemens کا نمائندہ – نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صرف سیفٹی زون میں انہوں نے 50,000–60,000 شہریوں کو بچایا، لیکن باہر قیامت تھی۔ منیہ شیگمیتسو (Minnie Vautrin) – امریکی مشنری – نے لکھا: “ہر رات سینکڑوں عورتیں ہمارے کمپاؤنڈ میں پناہ مانگتی تھیں، لیکن ہم سب کو بچا نہ سکے۔”
2. جاپانی فوجیوں کے اپنے اعترافات
پرنس آساکا، جنرل ایوانے ماتسوئی، اور کئی فوجیوں کی ڈائریاں اور خطوط جن میں وہ فخر سے لکھتے ہیں کہ “آج 150 آدمیوں کو کاٹا” یا “100 عورتوں کے ساتھ مزہ کیا”۔ 1990ء کی دہائی میں جاپانی ویٹرن Azuma Shirō سمیت کئی سابق فوجیوں نے کھل کر اعتراف کیا۔
3. تصاویر اور فوٹیج
امریکی مشنریوں (جان میگی، جارج فچ) کی لی گئی تصاویر اور فلم آج بھی موجود ہیں۔ جاپانی فوجیوں نے خود کئی تصاویر کھینچیں جو بعد میں سامنے آئیں۔
4. عدالتی ریکارڈ
ٹوکیو ٹرائلز میں جنرل ایوانے ماتسوئی کو پھانسی دی گئی۔ ننجنگ ملٹری ٹربیونل (1947) نے متعدد افسروں کو سزائے موت دی۔
آج کا تنازع
جاپان میں دائیں بازو کے گروپ اور کچھ سیاستدان آج بھی اسے “واقعہ” کہتے ہیں نہ کہ “قتلِ عام”، اور سکول کی کتابوں میں اسے کم کر کے دکھایا جاتا ہے۔ چین میں ہر سال 13 دسمبر کو قومی یومِ سوگ منایا جاتا ہے، اور ننجنگ میموریل ہال میں 300,000 شہیدوں کے نام کندہ ہیں۔
ننجنگ کا قتلِ عام کوئی متنازع “Narrative” نہیں، بلکہ ثبوتوں سے پختہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ انسانیت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جب فوج کو قانون سے آزاد چھوڑ دیا جائے تو تہذیب چند دنوں میں خاک بن جاتی ہے۔ یہ زخم آج بھی تازہ ہے کیونکہ اس کا مکمل اقرار اور معافی آج تک باقی ہے۔ تاریخ گواہ ہے: ظلم کو بھلا دینے سے وہ مٹتا نہیں، دہرایا جاتا ہے۔



