تحریر: عابد حسین قریشی
دل کی باتیں، جب دل سے کی جائیں، تو یہ دلوں پر دستک ضرور دیتی ہیں۔ ایک محترم دوست نے آج پوچھا کہ جب انسان کی تخلیق اللہ تعالٰی نے نہایت احسن طریقہ سے کی تو پھر انسان دوسروں کے لئے نفرت و بغض کیوں پالتے ہیں۔ میرے خیال میں محبت اور نفرت دو الگ الگ جذبات ہیں، دونوں میں شدت ہوتی ہے۔ مگر اکثر نفرت محبت پر غالب رہتی ہے۔ نفرت بھرے دلوں سے حسد ، بغض اور کدورت نکال کر اگر ان میں محبت و شفقت کی چاشنی کی آمیزش کر دی جائے، تو وہی دل گل و گلزار بن جاتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ آقا کریم صل للہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالی شان کا مفہوم اس طرح بھی ہے، کہ جس دل میں کینہ ہوگا، وہ جنت کی ہوا نہ دیکھ سکے گا۔ ہم کینہ رکھتے بھی ہیں، اسکی پرورش بھی کرتے ہیں،کینہ کو سینہ میں رکھ کر جینا چاہتے ہیں۔کینہ کی ہلکی سی جھلک اگر کسی نے دیکھنی ہو تو دوسروں کو رنج ، تکلیف اور ناکامی میں دیکھ کر اگر آپ کے دل میں مسرت اور شادمانی کی لہر پھوٹتی ہے، تو سمجھیں آپ کا دل کینہ سے لبریز ہے، صرف کسی کمزوری کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو پاتا۔ مزیدار بات تو یہ ہے کہ ہر صاحب کینہ سمجھتا یہی ہے کہ اسکا دل کینہ و بغض سے پاک ہے۔حاسد دوسروں کو ملنے والی نعمت سے حسد کرتا ہے۔ انسان بھی بڑی عجیب چیز ہے، نہ دوسروں کو معاف کرتا ہے اور نہ خود کو۔ حیرت ہے، کہ دوسروں کو معاف کئے بغیر ہم سارا دن اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ خدا ترسی اور خدا خوفی سے خالی دل سے مانگی گئی معافی عموماً بے اثر ہی ہوتی ہے۔ معافی مانگنا اور معافی کا ملنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔معافی تو سچے دل سے مانگنے کا حکم ہے۔ سچا دل کب ہوتا ہے، اسکی خبر نہیں۔ مگر دل کی الجھنیں یا طمانیت و قرار اسکا فیصلہ کر دیتا ہے۔
انسان عمومی طور پر مشکل اور مصیبت میں اللہ سے پہلے لوگوں سے مدد مانگتا ہے، اگر لوگ مایوس کریں تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ہماری ترتیب و ترجیح ہی غلط ہیں۔ جس دل میں اللہ ترجیح اول نہ ہے، اسکی اللہ سے محبت کیسی ؟ ۔ اللہ سے مانگ کر تو دیکھیں، وہ تو بن مانگے بھی بہت کچھ عطا کر دیتا ہے۔ اور احسان بھی نہیں جتاتا۔ ہم خود ہی ادھر ادھر سرگرداں رہتے ہیں۔ جس انسان نے بھی اپنے اللہ سے تعلق کو مضبوط کر لیا وہ خسارے میں رہ ہی نہیں سکتا۔شرط صرف صاف دل کے ساتھ، اسکی مخلوق کی خیر خواہی، تھوڑا سا خوف خدا اور کچھ خدا ترسی، اللہ سے ربط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا۔