عابد حسین قریشی
عجب زمانہ ہے، جن کو ہم سنانا چاہتے ہیں، وہ سنتے نہیں، جو سنتے ہیں، وہ سمجھتے نہیں، جو سمجھنا ہی نہیں چاہتے، انہیں ہم اپنی بات سنانے پر بضد ہیں۔ جو سنتے نہیں وہ سمجھتے بھی نہیں، اور جو سمجھتے نہیں وہ رکتے بھی نہیں۔ اور جو رکتے نہیں وہ کہاں کسی کے ہاتھ آتے ہیں۔ جو آپ سے بھاگنا چاہے، اسے بھاگنے دیں، جانے والے کہاں ٹہھرتے ہیں۔ کچھ کا نہ رکنا، رکنے سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر بندے کی سپیڈ اسکی capacity سے زیادہ ہے، مگر ایک ہی دائرہ میں دوڑ رہا ہے۔ سفر جاری ہے، مگر کٹتا نہیں۔ لگتا ہے، وقت رک گیا ہے، حالانکہ وقت کسی کے لئے رکتا نہیں۔ جو ہم دیکھتے ہیں، سراب ہے، وہم ہے، وسوسے ہیں، خوف ہیں، جو ہم نہیں دیکھنا چاہتے وہی ہمیں نظر آتا ہے، مگر جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، وہ کھلی آنکھوں سے کم مگر دل کی آنکھوں سے زیادہ نظر آتا ہے۔ ہم نے تو دل کے کواڑ ہی بند کر رکھے ہیں، دل میں بات تو پیار اور نفاست سے داخل ہوتی ہے، دماغ جو ہے باقی کچرا سنبھالنے کے لئے۔ جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی وہ بڑی سادہ اور عام فہم ہے، کہ کسی کو بھی بات سمجھانے یا سنانے کے لئے اسکی سطح پر آکر بات کرنی پڑتی ہے، برابری کی سطح پر، ہم اوپر سے بات مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا علمی رعب اور تفاخر ہمیں زمین پر قدم رکھنے ہی نہیں دیتا۔ اسی لئے ہماری بات اثر نہیں رکھتی۔