ابا میاں

تحریر: عائشہ عظیم

سنا ہے کہ آج بیٹی کا عالمی دن ہے لیکن ہم مسلمانوں کا ہر دن ماں کا دن باپ کا دن اور بیٹی یا بیٹے کا دن ہوتا ہے۔ ماں باپ کا جب دل چاہتا ہے اپنی اولاد کی طبیعت خوب اچھی طرح سے صاف کر دیتے ہیں۔ یوں اولاد کو سال کے 365 دنوں میں سے ہر دن اپنا دن محسوس ہوتا ہے۔ اس پہ ستم یہ کہ جس گھرانے سے میرا تعلق ہے وہاں تو جنریشن کی ایکس وائی اور زی تینوں کیٹیگری ایک ہی چھت کے نیچے میدان جنگ کا منظر پیش کیے رکھتی ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جنریشن ایکس نے جنریشن وائی کو بائی پاس کرتے ہوئے جنریشن زی کے ساتھ اعلا سطح کے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اب بے چاری جنریشن وائی نہ تین میں نہ تیرہ میں ۔ یہ وہ واحد مظلوم نسل ہے جس کی نہ اس کے والدین سنتے ہیں اور نہ اس کی اپنی اولاد۔ ان کا ایک اپنا نقطہ نظر ہے جو ان کی نظر میں درست ہے۔ وجہ اس تمہید کی حال ہی میں ابا میاں کی ہونے والی آنکھ کی سرجری ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ معمولی سی دھند آنکھ میں آئی تو ایک ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر نے دوا کھانے کو بھی دی اور قطرے ڈالنے کو بھی دیے۔ ابا کو فرق نہ لگا 4 دن بعد ڈاکٹر کے پاس پھر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے معمولی ردو بدل کے بعد دوا بدل دی۔ تیسرے دن مجھے فون کیا اور کہا کہ مجھے نظر آنا بالکل بند ہو گیا ہےاگلے دن میں پھر پہنچی ڈاکٹر پہ۔ ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی ابا میاں آپے سے باہر ہو گئےاور ڈاکٹر پہ چڑھ دوڑے۔ ڈاکٹر کو میرے پڑھے لکھے ہونے کا گمان گزرا۔ سو اس بار ڈاکٹر صاحب مجھے مخاطب ہوئے اور پانی کے بہتے پائپ پر پاوں آجائے تو پانی کے رک جانے سے پائپ میں پریشر بڑھنے جانے کی مثال دی اور مخصوص دوا کی عمومی مقدار کو ڈیڑھ گنا بڑھا دیا۔ ہم واپس ہوئے تسلی نہ ہوئی تو اگلے روز اپنے شہر کے مانے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جا پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے سٹاف نے مشینوں میں منھ ڈال ڈال کر تفصیلی جائزہ لیا اور سابقہ ڈاکٹر کے نسخہ کو پڑھ کے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ جو دوا کھاتے رہے ہیں۔ وہ دوا اور اس کی یہی مقدار تو آپ نے قطعی طور پہ نہیں لینی تھی۔ پریشر تو صفر ہے۔ پہلے ہم بڑھے ہوئے پریشر کو کم کر رہے تھے۔ اب ہم کم پریشر کو بڑھانے کی تگ و دو کرنے لگے۔ جب دوبارہ افاقہ نہ ہوا تو آنکھ ڈائلیٹ کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ ایسا نظر آیا کہ انھوں نے ہمیں فورا لاہور کے ایک آئی ہسپتال کاپتا بتایا۔ ہسپتال کی 4 منزلہ عمارت مختلف تفتیشی و تشخیصی و جراحی ساز و سامان سے لیس تھی۔ ہسپتال کے عملے نے طویل تشخیصی عمل سے گزارا اور ہر مرحلے کے لیے الگ الگ فلور کی سیر بھی کروائی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے آنکھ کا معائنہ کیا اور پردہ بصارت retinal detachment اکھڑنے کی خبر سنائی ۔ ایک طویل لسٹ ٹیسٹ کروانے کے لیے تھما دی گئی اور بتایا کہ بہت تکلیف دہ سرجری ہو گی۔ کل ہی ہو گی۔ ابھی ٹیسٹ کروا لیں۔ ابا میاں نے اپنے تمام والدانہ حقوق کا سامان کیا اور آواز میں قطعیت لاتے ہوئے کہا

تو چل ایتھوں۔ مینوں ایہ ہسپتال پسند نئیں آیا۔

سو چار ناچار ہم وہاں سے چل پڑے۔ اب میں نےاپنے ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ فون ملایا وہ چترال بیٹھے تھے لیکن آفرین ہے ان کے کہ میں نے انھیں جتنا تنگ کیا وہ اتنا تنگ ہوئے۔ میں نے انھیں فون ملا کر پہلی بات ہی یہ کہی کہ آپ کا بہت شکریہ لیکن ابا میاں کو ہسپتال پسند نہیں آیا۔ ڈاکٹر بھی کچھ بہکا بہکا سا لگا ۔ ذرا جدید نوعیت کا ڈاکٹر بتائیں جو ہمارے ابا میاں کی آنکھ سے آنکھ ملائے اور دور کی خبر لائے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال مہربانی کی ۔ نہ صرف ڈاکٹر کا پتا بتایا بلکہ اس ڈاکٹر سے وقت لے کر دیا جس کے پاس تین مہینے کا وقت نہیں ہوتا۔ اب کی بار ہمیں ڈاکٹر بھی پسند آیا اور ہسپتال بھی دل کو بھایا۔ سرجری کی تاریخ لی۔ ابا میاں کے ساتھ مزے دار سا کھانا کھایا اور گھر کو لوٹ آئے۔ سرجری سے ایک روز پہلے ہسپتال سے کنفرمیشن کال آئی لیکن ابا میاں انکار کر چکے تھے۔

میں آپریشن نئیں کرانا

کیوں ابو؟؟؟

ڈاکٹر کہتا میں بے ہوش نہیں کروں گا۔ میں جاگتے ذہن کے ساتھ اتنی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا۔ اوپر سے یہ کہ دو آپریشن ہوں گے۔ اس عمر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔

بہت سمجھایا لیکن نہ کو ہاں میں نہ بدلا جا سکا۔ الٹا جنریشن ایکس جذباتی بلیک میلنگ پہ اتر آئی۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں۔ آنکھ کے مسائل اور آنکھ میں درد بدستور قائم رہا لیکن نہ کو ہاں میں نہ بدل سکے۔ ہم بہن بھائی لگے رہے۔ ابا سے جھڑپیں بھی چلتی رہیں۔ اپنی سی کوشش کرتے رہے ہسپتالوں کا پتا کرتے اور ڈاکٹروں سے مشورہ کرتے رہے۔ اس دوران دو بار بلڈ پریشر بھی کم ترین سطح پہ چلا گیا۔ آخر کار راول پنڈی کے ایک ہسپتال کی خبر لائے کہ جناب یہاں سرجری ہو گی۔ ان سے بڑا ناپ ٹول کر اور سنبھل کر بات کی۔ ہم سب شدید حیران ہوئے جب وہ فورا مان چکے تھے۔ ہم بہن بھائی نے چھٹی منظور کروائی سامان پیک کیا۔ راول پنڈی میں رہائش تلاش کر کے بکنگ کروائی اور جا پہنچے ہسپتال۔ ڈاکٹر کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ ساتھ بیٹھے ایک مریض نے پوچھا آنکھ میں لگنے والے انجکشنز سے کہتے تھے بہت فائدہ ہوتا مجھے نہیں ہوا۔۔۔۔ آپ کو ہوا؟؟؟؟

اب میں اپنے ابا کو اور ابا میاں اس مریض کو دیکھیں۔ ابا کو سمجھ میں نہ آئے کہ اس بندے کو کیا کہنا ہے اور مجھے سمجھ میں نہ آئے کہ اگر ابا میاں اس بار بھی تھرک گئے تو کیا بنے گا۔

قصہ مختصر یہ انتخاب جنریشن ایکس کا اپنا تھا لہذا اس بار بھاگنے کی نوبت نہ آئی۔ ابا میاں کی 2 گھنٹے پر مشتمل طویل سرجری ہوئی اور مزید 2 گھنٹے ان کے دل کو انڈر آبزرویشن رکھا گیا۔ وہاں بھی بعد میں پتا چلا ہسپتال عملہ کی کلاس لے لی کہ میرے بچوں کو فورا میرے پاس بلائیں۔ الحمد للہ آج پٹی کھل گئی اور ڈاکٹر نے انھیں سفر کی اجازت دے دی ہے اور تین مہینے کے بعد ایک اور سرجری کی خبر سنائی۔ اب کل ان شاء اللہ ہم عازم لاہور ہوں گے جہاں ان کی بیگم صاحبہ شدت سے ان کی منتظر ہیں۔



  تازہ ترین   
سہیل آفریدی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب، احتجاجی سیاست کا چیمپئن ہوں: پہلا خطاب
کراچی میں کہیں احتجاج نہیں ہورہا، شہری افواہوں پر کان نہ دھریں: پولیس
وزیراعظم غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کیلئے مصر پہنچ گئے
مذہب کے نام پر تشدد کا سبق پڑھانا، معاشرہ یرغمال بنانا بند ہونا چاہئے: خواجہ آصف
غزہ امن معاہدے پر 20 ملکی سربراہی اجلاس، وزیراعظم شہباز شریف مصر روانہ
آئی ایم ایف سے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس چھوٹ کی تجویز مسترد، 6 ارب ڈالر کا منصوبہ خطرے میں پڑگیا
افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، آئی ایس پی آر
پاکستان پرامن مذاکرات کا حامی ہے، تاہم کسی بھی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا: ترجمان دفتر خارجہ





  ملتی میڈیا   
بلاول بھٹو زرداری کا خصوصی انٹرویو: “جنگ کا کوئی فائدہ نہیں، مذاکرات کا راستہ اختیار کریں”
پاکستان نیوی کے چیف نے نویں کثیر القومی بحری مشق “امن” میں شریک غیر ملکی جہازوں کا دورہ کیا۔ | آئی ایس پی آر
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا خطاب | “بریتھ پاکستان” عالمی ماحولیاتی کانفرنس 07-02-2025
آرمی چیف نے مظفرآباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ | آئی ایس پی آر
کشمیر ایک زخم | یومِ یکجہتی کشمیر | 5 فروری 2025 | آئی ایس پی آر