تحریر: عابد حسین قریشی
آقا کریم صل للہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے محمد نام تاریخ کائنات میں کبھی نہ سنا گیا نہ رکھا گیا۔ یہ نام اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عرش پر سنبھال رکھا تھا۔ کیا چاہت اور لگن تھی، کیا محبت و انس تھی، خالق کائنات کو اپنے اس آخری نبی اور پیغمبر سے کہ انکا نام مبارک بھی خود ہی تجویز کیا۔ اس نام میں کیا مٹھاس ہے، کیا حلاوت ہے، کیا شیرینی ہے،کیا جاذبیت ہے، کیا کشش ہے۔ کیا تقدس ہے، کیا وارفتگی ہے،کیا حسن و دلکشی ہے، کیا تراوت و تازگی ہے، کیا شادابی و راحت ہے، کہ جونہی یہ نام محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم زبان پر آتا ہے، ایک وجد،ایک لذت، ایک ذوق اور ایک کیف کی خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور یہ خوبصورت شعر اسی ندرت خیال کی ترجمانی کرتا ہے۔ زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا۔ کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے۔ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک میں دو میمیں آتی ہیں۔ ان میموں کے الفاظ جب زبان کا لمس محسوس کرتے ہیں، تو یوں لگتا ہے، کہ زبان محمد کا نام نامی چوم کر ادا کر رہی ہے۔ یہ ہے انفرادیت اس محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کی۔ اور کیوں نہ ہو، جو نبوت کی آخری اینٹ سرور کائنات نے چالیس سال کی ظاہری عمر مبارک میں رکھی، وہ خالق کائنات نے تخلیق کائنات سے لاکھوں سال قبل لوح محفوظ میں محمد کے نام کے ساتھ ختم نبوت کی یہ مہر سنبھال کر رکھی ہوئی تھی، چالیس سالہ عمر مبارک تو بس اس نبوت کے اظہار کا ایک طے شدہ وقت تھا۔ اللہ کے اس آخری نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ نام محمد پوری انسانیت کو اللہ کی طرف سے ایک تحفہ تھا، اس پیغام جاں فزا کے ساتھ کہ اگر دنیا و آخرت میں سرخروئی چاہتے ہو، دنیاوی و آخروی فیوض و برکات چاہتے ہو، تو اسی محمد عربی خاتم النبیین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو، ان سے عقیدت رکھو، ان کی آل سے پیار و انس کا رشتہ رکھو۔ اپنی نجات کا ذریعہ محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت اور وابستگی سے منسلک کر لو، کسی بھی جعل ساز اور دھوکے باز کے فریب و چالبازی میں ختم نبوت کے ایمان و یقین کو متزلزل نہ ہونے دینا، عقیدہ ختم نبوت اتنا ہی اہم اور دیرپا ہے، جتنا کسی بھی مسلمان یا مومن کا ایمان ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد بھی محمد عربی ہیں،اسکا آغاز بھی، اسکا درمیان بھی اور اسکا انجام بھی۔ محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت، انس و پیار اور آپ کی پیروی ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ اس میں نہ جھول کی گنجائش ہے، نہ ملاوٹ کی۔اللہ تعالٰی نے تو یتیم مکہ کو ان جاودانی عزتوں اور رفعتوں سے نوازا، جس نے معراج کی رات اپنے برگزیدہ بندے کو مکان و لامکاں کی سیر کرادی۔ جس نے اس اپنے اس محبوب نبی کو سر نہاں خانہ تقدیر کا محرم بنا دیا۔ غرض کے مالک کائنات نے محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری مخلوقات میں یگانہ اور عدیم النظیر بنا دیا، اور جو کہا کہ ہم نے تمہارا ذکر ہمیشہ کے لئے بلند کر دیا، اسے دکھایا بھی اور نبھایا بھی۔ یہی تو نام محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جس پر اللہ تعالٰی اوراسکے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں۔ کیا یہ فضیلت کسی اور نبی اور پیغمبر کے حصہ میں آئی۔ کیا مقام و مرتبہ ہے، میرے آقا کریم صل للہ علیہ وآلہ وسلم کا کہ ہر لمحہ دنیا کے ہر کونے سے لاکھوں کروڑوں افراد درود و سلام کے تحفے بھیج رہے ہیں، سورہ احزاب میں اسی محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں میں تو واضح اور اٹل انداز میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے،” کہ محمد آپکے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، اور وہ خاتم النبیین ہیں۔” کیا خطاب ہے، کیا منفرد و عالی شان ٹائٹل ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے، کہ خاتم النبیین کا یہ خوبصورت اور دل نشین ٹائٹل سجتا بھی تو ہمارے آقا محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے، جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، اللہ تعالٰی کے محبوب ہیں، ہم گناہ گاروں کی امیدوں کا سہارا ہیں، یہ نام محمد ہمارے دلوں کی دھڑکن اور ہمارے دلوں کا قرار ہے، اسی سے تو ہر سو بہار ہے، ہمیں اسی نام سے تو عشق اور پیار ہے،اسی نام محمد کی بدولت تو ہمارا وقار ہے، اور اسی نام کے طفیل تو ہمارے ایمان کا اعتبار ہے، تو پھر کیوں نہ دل پکار اٹھے،کہ میٹھا میٹھا ہے میرے محمد کا نام۔