تحریر: سعدیہ نارو
کچھ نام اور مقام ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ کے ٹو ٹریک کے پانچویں دن جب صبح کے سوا سات بج ہم پایو کیمپ سے خوبرسے کی طرف نکلے تو گائیڈ احمد ہمارے ساتھ تھا۔ دو گھنٹے کی چڑھائی اُترائی کے بعد جب تھکان ہونے لگی تو میں نے احمد سے کہا۔۔۔ “احمد تھوڑی دیر کے لیے کہیں بیٹھتے ہیں۔”

احمد نے دائیں ہاتھ کو ہوا میں گھمایا اور بالتورو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ “باجی ہم بالتورو پر چرسی پتھر پر بیٹھیں گے۔”
میں ٹھٹک گئی۔۔۔ چرسی پتھر؟ یہ کون سا نیا جغرافیائی عجوبہ ہے؟”

“وہ جی، وہاں پورٹرز بیٹھ کر تھوڑی دیر آرام کرتے اور سگریٹ پیتے ہیں۔۔۔ بس اس لیے نام پڑ گیا چرسی پتھر۔”
جب ہم بالتورو چڑھنا شروع ہوئے تو مجھے ہر بڑا پتھر چرسی پتھر لگنے لگا۔ مارے تجسس کے میں نے دو بار مختلف پتھروں کی جانب اشارہ کر کے احمد سے پوچھا۔۔۔ “یہی ہے چرسی پتھر؟”
ہر بار وہی جواب۔۔۔ “ نہیں باجی، وہ تھوڑا آگے ہے۔”
اس کے بعد میں نے دوبارہ نہیں پوچھا کہ احمد یہ نہ سمجھ لے کہ دو گھنٹے میں باجی کی بس ہو گئی ہے اور ابھی تو پورا دن باقی ہے۔
تقریباً پچاس منٹ بعد ایک دیو ہیکل چٹان ہمارے سامنے آئی تو احمد نے فخر سے اعلان کیا۔۔۔ “باجی یہ ہے چرسی پتھر۔”
لیکن قدرت کو ہماری خوشی گوارا نہ ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔ ایسے میں چرسی پتھر پر میں نے کیا آرام کرنا تھا۔ میں برستی بارش میں وہیں پاس ایک چھوٹے پتھر پر بیٹھ گئی اور بیگ سے خوبانیاں نکالتے ہوئے احمد اور اپنے ایک ساتھی کو ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ “لڑکو میرا آرام تو پار لگ گیا چلو اب تم دونوں ہی رسم ادا کر لو اور سگریٹ سلگاؤ تاکہ ہم آگے بڑھیں۔”