ممتاز جہاں بیگم دہلوی عرف مدھوبالا — ایک ایسا نام، جو صرف اداکارہ نہیں بلکہ ہندوستانی سنیما کی دھڑکن، حسن کی چلتی پھرتی تصویر، اور دکھ بھری شاعری کی جیتی جاگتی تشریح تھی۔ 14 فروری 1933 کو دہلی کے ایک پسماندہ مگر باوقار گھرانے میں جنم لینے والی یہ لڑکی قسمت کے سنگھاسن پر یوں بیٹھی کہ آسمان بھی جھک کر داد دینے لگا۔ لوگ اسے مشرق کی وینس کہتے تھے، مگر حقیقت میں وہ “جمالِ شرقی” کی وہ تصویر تھی جو فقط نگاہوں میں بستی نہیں، دل میں اترتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ “محل” فلم کا جب پہلا شو ہوا، تو کمال امروہوی کی کہانی، روشنیوں اور سائے کے کھیل سے زیادہ اگر کچھ چمکا تھا تو وہ مدھوبالا کی جادوگری تھی۔ ایسا لگا جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو، اور اس کی ہر ادا دلوں کو کچھ اس طرح چُھو جائے کہ لوگ سانس لینا بھول جائیں۔ اُس وقت کے ہر دلعزیز دلیپ کمار کے ساتھ اُس کی جوڑی نے تو جیسے رومانس کو بھی نئی زبان دے دی۔ “مغلِ اعظم” میں انارکلی بن کر مدھو نے صرف سلیم کا نہیں، پورے ہندوستان کا دل جیت لیا۔
مگر اے افسوس! یہ چمکتا ستارہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ دلیپ کمار سے عشق، جو کہ رومیو جولیت کا سا خواب تھا، وقت کے تھپیڑوں نے اُسے شکستِ عشقیہ میں بدل دیا۔ تعلقات کی کڑواہٹ، خاندان کا دباؤ، اور بیماری کا زہر — سب نے مل کر مدھوبالا کو تنہائی کے ایسے قید خانے میں دھکیل دیا جہاں صرف یادیں اور تکیے بھیگتے آنسو رہ گئے۔
مدھوبالا کے دل میں سوراخ تھا — جی ہاں، طبّی زبان میں “congenital heart defect” — مگر اُس نے کبھی اپنے چہرے پر مایوسی کو سایہ فگن نہیں ہونے دیا۔ وہ مرتے دم تک کیمرے کے سامنے اس طرح ہنستی رہی جیسے زندگی اُس کے ساتھ نہیں، وہ زندگی کے ساتھ کھیل رہی ہو۔ “برسات کی رات”، “چلتی کا نام گاڑی”، “ہاؤس نمبر 44” جیسی فلموں میں اُس کی بے ساختگی، بانکپن اور سادگی نے دیکھنے والوں کو مسحور کر دیا۔
مدھوبالا صرف ایک اداکارہ نہیں تھی، وہ دہلی کے اندرون شہر کی مہکی ہوئی گلیوں، لکھنؤ کے ناز و انداز، اور بمبئی کی شو بز دنیا کی وہ نایاب خوشبو تھی جسے وقت کا کوئی جھونکا مٹا نہیں سکا۔ اُس کی زندگی کا آخری سفر “جوالا مکھی” کی طرح تھا، ہر لمحہ درد، مگر ہر درد میں بھی فن کی تابانی۔
23 فروری 1969 کو جب یہ نازنین دنیا سے رخصت ہوئی تو نہ صرف سنیما خاموش ہو گیا، بلکہ لگتا تھا کہ ہنسی، محبت، اور خواب بھی اُس کے ساتھ دفن ہو گئے۔ مگر آج بھی جب پردۂ سکرین پر اُس کی مسکراہٹ اُبھرتی ہے، تو دل بےاختیار کہہ اٹھتا ہے:
“مدھوبالا، تم فقط فلموں کی اداکارہ نہ تھیں، تم خوابوں کی شہزادی، اور دلوں کی ملکہ تھیں — اور رہو گی!”