تحریر: جاوید انتظار
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 30 نومبر 2015 میں ہوئے تھے۔ ایم سی آئی اسمبلی وجود میں آئی ۔ جس میں منتخب بلدیاتی نمائندے موجود تھے۔ غیر منتخب بلدیاتی نمائندے کو مئیر اسلام آباد مقرر کر دیا گیا تھا۔ تب وفاقی حکومت مسلم لیگ ن کی تھی۔ جس میں مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مقامی حکومت میں اپوزیشن تحریک انصاف کے بلدیاتی نمائندوں کے حصے میں ائی۔پھر وقت حالات اور سیاست نے کروٹ لی۔ 2018 میں وفاقی حکومت تحریک انصاف کے حصے میں اگئی۔ بدقسمتی سے مقامی حکومت میں بلدیاتی نمائندے عوام کے مسائل کا احاطہ کرنے اور حل تلاش کرنے بارے سوچنے سے قاصر رہے۔ انکی تمام تر صلاحیتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی باہمی سیاسی چپقلش میں فضول بحث و مباحثہ اور اختلافات میں ضائع ہو گئیں۔اسلام آباد کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو نہ کوئی اختیار دیا گیا نہ ہی فنڈز مختص کئے گئے ۔جس کیوجہ سے بلدیاتی انتخابات میں جیتنے والے امیدوار زیادہ ذلیل و رسواء ہوئے۔ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے اور ایم سی آئی نے ملکر عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جس کیوجہ سی ڈی اے کی پہلے والی کارکردگی میں بھی کمی آئی تھی۔ 30 نومبر 2015 سے لے کر تاحال اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ بلدیہ کو جمعوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ اس نرسری کو پروان چڑھانے کے لئے کسی سیاسی جماعت ، کسی حکومت ، کسی عدالت اور میڈیا نے کوئی بات کی اور نہ ہی ضروری سمجھا. البتہ الیکشن کمیشن نے یونین کونسلز میں اضافہ کیا۔ دو سے تین بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا۔بلدیاتی نمائندوں سے انتخابی فیس وصول کی۔ الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق جمع کروائی گئی فیس ناقابل واپسی ہوتی ہے ۔ وہ ناقابل واپسی تب ہوتی ہے جب الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق انتخابات کروائے۔ الیکشن کمیشن نے گلی محلوں کے عام غریب اور متوسط طبقے کی لیڈرشپ سے کڑوروں روپے فیس وصول کرنے کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ اس بنیادی جمہوری اور آئینی حقوق کے خلاف اقدام پر میڈیا نے بھی کبھی الیکشن کمیشن سے نہیں پوچھا۔ کہ وہ انتخابی فیس کے پیسے کہاں گئے ؟ حالانکہ الیکشن کمیشن کے انتخابات کے دئے گئے شیڈول پر بلدیاتی نمائندوں نے انتخابی مہم پر بھی پیسہ خرچ کیا۔ اس کا حساب کتاب بھی کسی نے نہیں دیا؟
عوام کے ذہنوں میں سوال پیدا ہوا کہ وفاقی دارالحکومت میں قومی اداروں ،سیاسی جماعتوں ، عدلیہ اور میڈیا کی بے حسی یہ ہے تو غریب و متوسط طبقے سے ملک کی حقیقی لیڈرشپ کیسے اوپر آئے گی ۔ کون ہے جو جمعوریت کی نرسری بلدیہ کی جڑوں میں گرم پانی ڈال کر کھوکھلا کرنا چاہتا ہے؟ جب کہ ملک کی پارلیمنٹ نے 27 آئینی ترمیم کر کے ملک میں طبقاتی نظام کی بنیاد رکھ دی۔ آئین پاکستان ایک مقدس دستاویز ہے ۔ جو ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان ایک سماجی اور عمرانی معاہدہ ہے ۔ جس میں فریقین کے باہمی حقوق کا تحفظ ترجیح ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں این ایف سی ایوارڈ پر لڑ رہی ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ میں بلدیاتی حکومت کے لئے فنڈز مختص نہیں کئے جاتے۔ 27 ویں ترمیم کے بعد غالب امکان ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے ملکی دفاع کے لئے فنڈز رکھے جائیں۔جبکہ ملک کی نظریاتی سرحدوں پر مقامی حکومت کے ذریعے پیسہ خرچ کرنے کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے اسلام دولت اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم پر یقین رکھتا ہے ۔ لیکن ایسا نظر نہیں آتا نہ عمل کیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ کے نظام میں کسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ آئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے روشنی لے کر آئین ترتیب دیتا ہے۔ اللہ کے نظام میں اگر کوئی مسلسل بیس سال چوبیس گھنٹے مسجد میں اللہ کی عبادت میں مشغول رہے۔ اسے بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اسے بھی اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا پڑتا ہے۔ 27 ویں ترمیم میں شخص ، عہدے اور اعزاز کو تاحیات استثنیٰ دینا کسی طور پر جائز نہیں۔ ایسا استثنیٰ طبقاتی تقسیم کو جنم دیتا ہے۔ جس سے معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ جو معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی اور ریاستی ادارے باہمی چپقلش میں الجھے ہوئے ہیں ۔سیاسی ادارے اور لیڈرشپ کرپٹ قومی اور ریاستی اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے انکو بند یا بد نام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ریاستی ادارے اپنی حدود و قیود سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور لیڈرز کے خلاف گفتگو کر رہے ہیں ۔جس سے عوام اور ارباب اختیار میں فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ جس سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔ ملک میں ایک سوچ جنم لے لیتی ہے کہ یہاں کوئی آئین اور قانون ہے ہی نہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے ۔ لیکن عوام اس اعلان پر یقین نہیں کر رہی۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد آزاد گروپ کے نام سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک گروپ کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کو تحریک تحفظ سرکاری ملازمین کا سیاسی ونگ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں بائیس سرکاری سب سیکٹرز میں تحریک تحفظ سرکاری کے اراکین مرکزی کمیٹی موجود ہیں ۔ ہر سب سیکٹر میں ایک مرکزی رکن کی قیادت میں سات رکنی تنظیمی کمیٹی بنائی گئی ہے ۔اس طرح 176 عہدیداران پر مشتمل تحریک تحفظ سرکاری ملازمین نے اپنے سیاسی ونگ اسلام آباد آزاد گروپ کے پلیٹ سے شہری اور دیہاتی علاقوں کی یونین کونسلز سے اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ناچیز راقم الحروف اسلام آباد آزاد گروپ کا چیئرمین ہے۔ اس پلیٹ فارم سے پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اپنے مطالبے کے حق میں شہری اور دیہاتی علاقوں میں عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے ۔ جو دسمبر کے مہینے میں کی جائے گی ۔ جس میں اسلام اباد آزاد گروپ اپنے مطالبے کے حق میں رائے عامہ منظم کر کے عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے متحرک اور فعال ہوگا۔ جو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول جاری کرنے کا عملی مطالبہ کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ خارج از امکان نہیں۔ اس حوالے سے جلد پانچ رکنی انتخابی کمیٹی بنائی جائے گی۔ جو تمام یونین کونسلز سے اپنے امیدوار نامزد کرنے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے میں مکمل با اختیار ہوگی۔ جب تک غریب و متوسط طبقے کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تب تک دیرینہ عوامی مسائل کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں ۔ اسلام آباد آزاد گروپ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اجتماعی عوامی مفادات کے لیے مشترکہ جدو جہد کے ایجنڈے اور منشور کیساتھ بلدیاتی انتخابات میں طبع آزمائی کرے گا۔ جس سے اسلام آباد میں نرم انقلاب کی بنیاد پڑے گی ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات



