تحریر: سعید جاوید
کراچی میں اچھی خاصی تعداد میں پارسی خاندان بھی آباد تھے۔ یہ کافی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ بہت عرصہ پہلے ایران سے کراچی میں آن بسے تھے ۔ یہ عموماً مغربی لباس ہی زیب تن کرتے تھے ۔صبح صبح ان کی خواتین اپنے گھروں کے دروازے کے سامنے فٹ پاتھ پر رنگ برنگے پاؤڈر سے بیل بوٹے بناتی تھیں۔یہ لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے، اس لیے زرتشت کہلاتے تھے ۔ ان کے معبدکو آتش گاہ دار مہر کہتے تھے ۔ یہ عبادت گاہ بھی قریب ہی فرئیر اسٹریٹ پر واقع تھی۔ اسکول میں میرا ایک پارسی دوست تھا جو مجھے ایک دفعہ اپنے ساتھ لے گیا اور سارے معبد کو اندر سے دکھایا، ورنہ وہاں کسی غیر مذہب کے باشندے کو اندر جانے کی کھلم کھلا اجازت نہیں تھی ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اندر ہال میں کافی سارے بت تھے جو غالبا ً زرتشت بادشاہوں کے تھے۔بیچ میں ایک چھوٹے سے آتش دان میں آگ کا ہلکا سا شعلہ بھڑک رہا تھا ۔ یہ ان کے نزدیک بڑی مقدس آگ تھی اور اسے ہمیشہ جلتے ہی رہنا چاہیے تھا ۔
پارسی مرگ کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد اپنے مردوں کو اس جگہ لے جاتے تھے جسے موت کا کنواں یا مینار خاموشی (ٹاور آف سائلنس) کہا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت چوڑا سا کنواں ہوتا تھا ۔کراچی میں یہ ریلوے لائن کے اس پار محمود آباد کے پاس تھا ۔اس کا دور ہی سے پتہ چل جاتا تھا کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں گدھ ، چیل اور کوے ہوا میں منڈلاتے رہتے تھے اورکچھ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے نظر آتے تھے ۔
اس مخصوص احاطے میں ایک خاص مقام سے آگے کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی سوائے ان دو افراد کے جو مردے کو اٹھا کر آگے لے جاتے تھے ۔ وہ سیڑھیوں سے کنویں میں اتر جاتے اوراس کی دیوار کے ساتھ بنے ہوئے پلیٹ فارم پر لاش کو رکھ آتے ۔ اندر سے دیکھا تو نہیں اور نہ ہی کسی نے دیکھنے دیا ، لیکن وہاں کے پٹھان چوکیدار نے بتایا تھا کہ جب مردے کا جسم پرندے کھا لیتے ، تو ان کے ڈھانچوں کو اکٹھا کرکے نیچے کنویں کی تہہ میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں وہ وقت کے ساتھ ساتھ فنا کی منزل کو پہنچ جاتے تھے،یا ان کی صفائی کروا دی جاتی۔
بندر روڈ پر ہی گرومندر کی طرف جاتے ہوئے نمائش سے پہلے ایک سڑک بائیں طرف کو نکلتی تھی،جہاں کچھ آگے چل کر پارسی کالونی آتی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک انتہائی خوب صورت احاطہ تھا جس میں کوئی ساٹھ ستر بڑے بنگلے بنے ہوئے تھے۔ یہ کراچی کے دولت مند اور صاحب ثروت پارسیوں کی رہائش گاہیں تھیں ۔ویسے عام حالات میں تو کسی غیر متعلقہ شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن مجھے اندرسے دیکھنے کا اتفاق ہواتھا۔بہت ہی خوب صورت کمپاؤنڈ تھا ، جس میں چاروں طرف بنگلے بنے ہوئے تھے اور وسط میں ایک خوب صورت باغ تھا ، جہاں ایک فوارہ چلا کرتا تھا ۔اسی باغ میں ایک بہت بڑا سا مگر لکڑی کا خوب صورت چھپرا بنایاگیا تھا جس کی نیچے متعدد بنچیں لگی ہوئی تھیں۔ یہاں یہ لوگ بیٹھ کر آرام کرتے اور اپنے روز مرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے تھے ۔ احاطے میں ایک لائبریری بھی تھی جس میں ان کی مذہبی کتابوں کے علاوہ عمومی موضوعات پر کتابیں، اخبار اور جرائد بھی ہوتے تھے ۔اس زمانے میں ایک ہی احاطے میں کسی ایک برادری کا اکٹھے قیام پزیر ہونا ایک انوکھی مگر اچھی بات لگتی تھی۔
پارسی کراچی کے قدیم باشندوں میں سے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل بھی انہوں نے کراچی کی ترقی میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی مہتا بھی پارسی تھے ۔ وہ اور ان کے ساتھیوں نے جدید کراچی کی بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے بڑے عظیم الشان منصوبے مکمل کیے۔ ان میں کچھ کا تو سب کو علم ہے، جیسے کراچی کی پہلی بوائے اسکاؤٹ تنظیم کو انہوں نے ہی منظم کیا تھا۔ عظیم اداروں میں ڈی جے کالج ، این ای ڈی یونیورسٹی، لیڈی ڈفرن ہسپتال اور کراچی کے مشہور ماما پارسی اسکول کی تعمیر بھی پارسیوں ہی کی مرہون منت تھی۔
پارسی بہت ہی تعلیم یافتہ ، مہذب، با اخلاق اور با کردار لوگ تھے تاہم وہ اپنے آپ کو دوسری قومیتوں سے ذرا الگ تھلگ ہی رکھتے تھے ۔کاروبار بھی کرتے تھے لیکن زیادہ تر انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ بعض افراد مختلف پیشوں، جیسے طب، انجینئرنگ، وکالت، درس و تدریس اور صحافت وغیرہ سے وابستہ تھے۔ ارد شیر کاؤس جی کا نام بھلا کس نے نہ سنا ہو گا! وہ ایک جانے پہچانے کالم نگار اور دانشور تھے ۔ کراچی کو ہمیشہ ان کی شہریت پر فخر رہا ۔ ان کے علاوہ بھی پارسیوں میں چند نام بہت ہی جانے پہچانے تھے اور ان کا پاکستان کی تاریخ بنانے اور اس کو ترقیوں کی منزل پر لے جانے میں بڑا حصہ تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کراچی کو اس کی عظمت دلانے میں ان لوگوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ وہ پس منظر میں رہ کر بھی ملک کی خدمت اور بہتری کی لیے کام کرتے رہے اور پاکستان میں اور بیرون ملک بڑی نیک نامی کمائی ۔
ان میں جسٹس دراب پٹیل ،آواری ہوٹل کے مالک ڈنشا جی آواری، اور کرکٹ کے جانے مانے انگلش کمنٹیٹر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جمشید مارکر جیسے عظیم لوگ بھی تھے۔ پاکستان میں شراب بنانے والی اکلوتی اور سب سے بڑی فیکٹری مری بروری کے مالک منوچہر بھنڈارا بھی پارسی ہی تھے ۔ پاکستان آرمی میں پارسی میجرجنرل مانیک سپاری والا کووطن کے لیے بے بہا خدمات انجام دینے پرہلال امتیاز سے نوازا گیا۔کراچی کے پہلے میئر نسروانجی مہتا کو کراچی کا معمار بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کی کراچی کے لیے بے شمار خدمات تھیں ، جن میں سے اکثر تو قیام پاکستان کے قبل ہی کی تھیں لیکن وہ پاکستان بن جانے کی بعد بھی چار پانچ سال حیات رہے اور کراچی کے ہر بڑ ے منصوبے میں ان سے رائے ضرور لی جاتی تھی ۔
پارسی خواتین میں بھی بڑے بڑے نام موجود ہیں۔ان میں سدھوا خاندان کی کئی خواتین سر فہرست تھیں جنہوں نے بہت سے سماجی کام کروائے۔
ہمارے بچپن میں ایمپریس مارکیٹ کے قریب ایک پارسی ڈاکٹر کا مطب تھاجس کا صدر کے علاقے میں بڑا چرچا تھا۔ اس کا نام ڈاکٹرگساد بی مہتا تھا۔ وہ صرف آٹھ آنے فیس لیتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اتنی شفا تھی کہ شاید ہی کسی مریض کو دوبارہ اس کے پاس جانے کی نوبت آتی ہو ۔ اس کے مطب میں ہر وقت اتنا ہجوم رہتا تھا کہ تل رکھنے کوجگہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے میز کرسی پر بیٹھا ہوتااور ایک وقت میں کئی مریضوں سے بات کر رہا ہوتا تھا ۔ کسی کی نبض دیکھ رہا ہوتا تو کسی کوسٹیتھو سکوپ لگایا ہوا ہوتا تھا اور تیسرے کا نسخہ لکھ رہا ہوتا تھا ۔ اس کے بارے میں یہ لطیفہ بن گیا تھا کہ وہ کسی مرد کو سٹیتھو سکوپ لگائے ہوئے تھا ۔ اور اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ‘‘ مبارک ہوئے تیرے کو بچہ ہوئیں گا’’ ۔وہ یہ سن کرزرد پڑ گیا، دیکھا تووہ کسی عورت کی نبض دیکھ کر اسے بتا رہا تھا ۔
اس کے پیچھے ایک کاؤنٹر پر گولیوں کے کچھ ڈبے اور شیشے کے بڑے مرتبانوں میں تین مختلف رنگوں کے انتہائی کڑوے اور بد ذائقہ شربت پڑے ہوتے تھے۔ وہاں کھڑا ہوا ڈسپنسر ڈاکٹر کی پرچی کے مطابق ان میں سے شیشیاں بھر کر ان پر کاغذ کاٹ کر بنائی ہوئی کنگریوں والی لمبی سی پٹیاں چسپاں کر دیتا تھا ۔ یہ گویانشانی ہوتی تھی کہ ایک وقت میں اس دوا یا شربت کی کتنی مقدار لینا ہے ۔ بد ذائقہ پاؤڈر کی بھی وہ چھوٹی چھوٹی پڑیاں بنا کر دیتا تھا ۔ اس کی یہ دوائیں ماں باپ کے تشدد کے بغیر بچوں کو کھلانا یا پلانا نا ممکن تھا۔ ان ادویات کے علاوہ ، وہ کوئی ٹیسٹ یا ایکسرے وغیرہ کروانے کو نہیں کہتا تھا ۔ بس اس سیدھی سادی دوا سے اگلے دو تین دنوں میں مریض کو مکمل افاقہ ہو جاتا تھا۔ہمارے خاندان کا تووہ ایک طرح سے فیملی ڈاکٹر بھی تھا ۔ یاد داشت اس کی بڑی تیز ہوتی تھی۔ مریض کو پہچانتے ہی اس کو کہتا تھا کہ ‘‘ تُو اب دوبارہ کائے کو آیا رے’’۔ پھر اسے پچھلی بیماری کی یاد بھی دلا دیتا تھا۔
سن ساٹھ کی دہائی تک تو کراچی میں پارسی اکثر نظر آجاتے تھے ، پھر نہیں معلوم کہ ایسا کیاہوا کہ کراچی کے یہ مہذب اور قابل احترام شہری آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہوتے گئے اور اپنا صدیوں پرانا وطن چھوڑ کر نہیں معلوم کس انجانے دیس میں جا بسے۔پیچھے بس چند خاندان ہی رہ گئے تھے جو شاید اپنی اس مٹی کو چھوڑنا نہ چاہتے ہوں ، یا ان کے کاروباری معاملات اتنے پیچیدہ اورپھیلے ہوئے تھے کہ ان کے لیے جانا ممکن ہی نہ تھا۔
کچھ تو پارسیوں کی گھٹتی ہوئی شرح پیدائش اور کچھ نا مناسب مذہبی رویوں سے مایوس ہو کر وہ رفتہ رفتہ کراچی سے حرف آخر کی طرح مٹتے ہی چلے گئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی میں بس ڈیڑھ دو سو ہی پارسی خاندان رہ گئے تھے ، باقی سب مغرب کی طرف نقل مکانی کر گئے ۔اب تو شاید وہ بھی نہ رہے ہوں! وقت نے کیا ،کیا حسیں ستم۔ایک ایک کرکے سب رخصت ہوئے۔ بڑا ہی بدقسمت تھا کراچی شہر جو اپنے اتنے پیارے اور محترم شہریوں کو نقل مکانی سے نہ روک سکا ۔
کراچی کے پارسی



