تحریر: عابد حسین قریشی
چہرہ شناسی ایک فن ہے، آرٹ ہے، ہر کوئی اس آرٹ سے آشنا نہیں ہوتا، یہ اللہ تعالٰی کی عطا ہے۔ بعض چہرے مشکل سے سمجھ آتے ہیں، بعض لوگ اپنے جذبات چھپانے میں ماہر ہوتے ہیں، ان کے سامنے بندے تڑپ جائیں یا خوشی سے نہال، وہ سپاٹ چہرے سے ہی سب کچھ دیکھنے اور سہنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر بہت سے چاہیں بھی تو یہ جذبات چھپا نہیں سکتے۔ خوشی ملنے پر بلند آہنگ قہقہے اور خوامخواہ لوگوں سے معانقے اور غم کی صورت میں لٹکا ہوا چہرہ اور شدید ڈپریشن کا اظہار، اس طرح کے لوگوں کا چہرہ پڑھنے کے لئے چہرہ شناسی کے فن سے آشنا ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ ہم بڑے complexed معاشرہ میں رہ رہے ہیں، ہمارے چہرہ کی مسکراہٹ بہت سے چہروں پر مایوسی اور پریشانی کا باعث بنتی ہے، اور ہماری پریشانی بہت سے دلوں میں طمانیت اور خوشی کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟؟ ہم کسی کی پریشانی والی بات سن کر بقول بانو قدسیہ دوسروں کو ہنس ہنس کر کیوں سناتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف میں راحت کیوں محسوس ہوتی ہے، حسد، بغض، کینہ اپنی جگہ مگر ہم اتنے اذیت پسند کیوں بنتے جا رہے ہیں، کہ کسی دوسرے کے دکھ میں بھی اپنے لئے راحت و آسودگی پاتے ہیں۔ ہمیں تو معاشرتی طور پر ایک دوسرے کا سہارا بننا تھا، ہم اسکی بجائے کسی کے دکھ کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اچھی خبر کو نظر انداز کرکے بری خبر کے متلاشی کیوں ہوتے ہیں۔ آپ کسی دوست یا جاننے والے کو دس اچھی خبریں سنائیں، وہ ٹس سے مس نہیں ہوگا، ایک خبر اپنی کسی ناکامی یا پریشانی کی سنائیں، اسکے چہرے پر فوری بشاشت کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ ہم تن گوش ہو کر یہ پریشانی والی روداد سنے گا۔ آپ کاروبار کر رہے ہیں یا ملازمت، زمیندارہ یا بیوپار، یہی اصول ہر جگہ کار فرما ہے۔ شاید ہمارے معاشرتی مسائل نے ہمیں زود رنج اور اذیت پسند بنا دیا ہے۔ آپ کسی دوست کی زیادہ تعریف شروع کر دیں تو باقی لوگوں کو اسی محفل میں باقاعدہ انقباض کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے جو انکے چہروں سے فوری عیاں ہو گی۔ میرا صرف ایک ہی سوال ہے، کہ لوگ آخر منفی باتوں میں ہی کیوں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، یہ کوئی نفسیاتی عارضہ یا ذہنی الجھن ہے۔ کچھ تو ہے، جس نے سارے معاشرہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے، کہ ہمارے مجلسی قہقہے بھی مصنوعی اور ہمارے آنسو بھی ریا کاری کے۔ من کا اخلاص اور دلوں کی چاہت کیوں اور کدھر اڑ گئی کہ ہم ایک دکھاوےوالے معاشرہ میں ایک بناوٹی یا اوپری اوپری زندگی جی رہے ہیں۔
کچھ معاشرتی تضادات



