کویت سٹی (شِنہوا) ایک کویتی ثقافتی محقق نے کہا ہے کہ ثقافتی سفارت کاری اور خواتین کی قوت کویت-چین تعلقات کی مستحکم پیش رفت کے پیچھے محرک قوتیں ہیں اور دونوں ممالک کی خواتین کے درمیان تبادلے اس شراکت داری میں بھرپور انسانی توانائی بھر رہے ہیں۔
کویت-چین فرینڈشپ کلب کی چیئر ویمن شیخہ العنود الابراہیم الدویج الصباح نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران کئی بار چین کا دورہ کیا ہے اور ان کے قدم بیجنگ، شنگھائی، ہانگ ژو، شین زین، ین چھوان اور دیگر شہروں تک پہنچے ہیں۔
شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کویت اور چین کے درمیان 50 سال سے زائد کے سفارتی تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے سرکردہ خواتین کی شراکت کو اجاگر کیا جن میں لولوہ القطامی بھی شامل ہیں جو کویت ویمنز کلچرل اینڈ سوشل سوسائٹی کی بانی اور کویت یونیورسٹی میں ویمنز کالج کی پہلی ڈائریکٹر تھیں۔
العنود نے بتایا کہ لولوہ نے 1970 اور 1990 کی دہائی کے درمیان کئی بار چین کا دورہ کیا جہاں ان کا استقبال چین کے مرحوم وزیراعظم ژو این لائی کی اہلیہ ڈینگ ینگ چھاؤ اور دیگر سینئر چینی شخصیات نے کیا اور انہوں نے بیجنگ، اندرونی منگولیا اور یون نان کا دورہ کیا۔
العنود نے کہا کہ لولوہ عظیم دیوار پر سنا ہوا مشہور چینی مقولہ کویت واپس لائیں کہ ’’جو عظیم دیوار نہیں گیا وہ سچا ہیرو نہیں‘‘ اور یہ آج بھی بہت سے کویتیوں میں جانا پہچانا ہے۔ تاریخ کا یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین نہ صرف سماجی ترقی میں حصہ لیتی ہیں بلکہ بین الثقافتی تبادلے میں اہم پیغام رساں بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں کویتی انجمنوں اور رضاکارانہ تنظیموں کی مزید خواتین رہنماؤں نے چین کا دورہ کیا ہے جن میں تعلیم، صحت اور خواتین و بچوں کی بہبود جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تبادلوں نے باہمی مفاہمت اور تعاون کو بہت گہرا کیا ہے۔
کویتی اور چینی خواتین کے درمیان تبادلے دوطرفہ تعلقات میں ثقافتی جان ڈالنے لگے، کویتی محقق
