بالتورو کا سحر
تحریر: سعدیہ نارو
۲۴ جولائی ۲۰۲۵
۲۴ جولائی کی سحر خیزی نے جب میری پلکوں پر دستک دی، تو میں خاموشی سے خیمے کی چھت کو تکتے ہوئے نجانے کب تک لیٹی رہی۔ نیند اب روٹھ چکی تھی اور واپسی کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہ ٹریکنگ کا چوتھا دن تھا اور ہم اس نئی طرزِ زندگی کے عادی ہو چکے تھے۔ علی الصبح جاگنا اب معمول بن چکا تھا۔ یہ وقت پر تیار ہونے کا احساسِ ذمہ داری تھا یا پھر میرے بے چین مزاج کا شاخسانہ جو مجھے خیمے کی محدود فضا میں زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتا تھا۔ ہمارے دن اب ایک مخصوص ترتیب سے بندھے تھے۔ طلوعِ آفتاب سے قبل بیداری، مختصر تیاری، ناشتہ اور پھر ایک نئی راہ پر ایک نئی کیمپ سائٹ کی جانب روانگی۔

عمیر حسن کی ٹیم کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے فرائض سے بخوبی واقف تھے۔ وقت کی پابندی، نظم و ضبط اور ذمہ داری کا بھرپور احساس اُن کے ہر عمل سے جھلکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر کام وقت پر اور خوش اسلوبی سے مکمل ہو جاتا۔ آج بھی حسبِ معمول ناشتہ وقت پر تیار تھا۔ سب ممبرز نہ صرف جاگ چکے تھے بلکہ سامان سمیٹ کر روانگی کے لیے تیار بھی تھے۔ جوں ہی ہم ناشتہ مکمل کر کے فارغ ہوئے، پورٹرز نے مستعدی سے خیمے سمیٹنا شروع کر دیے۔ میس کیمپ کے گرد چہل پہل تھی، ہر شخص اپنے کام میں مگن اور وقت… وہ شاید کسی پتھر پر بیٹھا خاموشی سے ہماری سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
آج ہمارے چار ساتھی طبیعت کی ناسازی کے باعث ہمارے ہمراہ آگے روانہ نہیں ہو رہے تھے۔ عمران، جو اس ٹریک کے لیے امریکہ سے آئے تھے اور بظاہر صحت مند و توانا جسم کے مالک تھے، سانس کی دشواری کے باعث پایو ہی میں قیام پر مجبور ہو گئے۔ حسام، جو محض سترہ یا اٹھارہ برس کا ایک تندرست نوجوان تھا، دو روز کی جسمانی تھکن اور ذہنی دباؤ سے گھبرا گیا، تو اس کے تایا اور والد نے بھی واپسی کو ترجیح دی۔

حسنین، علی بھائی اور حسام سے ہماری رفاقت کا آغاز لاہور ایئرپورٹ سے ہوا تھا۔ ہم ایک ہی پرواز میں شریکِ سفر تھے، ایک ہی ہوٹل میں قیام رہا اور سکردو پہنچ کر جی جی لا کے لیے سامان کی خریداری بھی اکٹھے کی۔ سکردو کے شاہی دیوان ریسٹورنٹ میں پہلا ڈنر بھی ان ہی کے ساتھ تھا۔ ان چاروں کا یوں اچانک واپس لوٹ جانا ہم سب کے لیے باعثِ افسوس تھا۔
پہاڑوں میں انسان کی ہمت، صحت اور ارادے کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ یہاں نہ صرف جسم تھکتا ہے بلکہ دل اور دماغ بھی تھکن سے چور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ضد کرنا، یا خود کو پہاڑوں کے مقابل لانا دانائی نہیں۔ پہلا اصول ہمیشہ اپنی صحت، سلامتی اور زندگی کی ترجیح ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہاڑ صدیوں سے اپنے مقام پر ایستادہ ہیں اور آنے والے برسوں میں بھی یوں ہی رہیں گے۔ اگر یہ سفر اس سال مکمل نہ ہو سکا تو کیا؟ زندگی مہلت دے گی، وقت ایک اور موقع عنایت کرے گا۔ اصل دانشمندی یہی ہے کہ انسان اپنی حد پہچانے اور فطرت کے سامنے عاجزی سے سر جھکانا سیکھے۔

اب ہمارا قافلہ ستائیس سے سکڑ کر تئیس افراد پر مشتمل رہ گیا تھا۔ ہر مسافر اپنے کاندھوں پر رختِ سفر لادے، گروپ لیڈر عمیر حسن کے اشارے کا منتظر تھا۔ آج ہمیں پایو کیمپ سائٹ سے خوبورسے کیمپ سائٹ تک کا سفر درپیش تھا۔ چودہ کلومیٹر کا طویل ٹریک جو بالتورو گلیشئیر کی سنگلاخ وسعت اور ناہموار سطح پر پھیلا ہوا تھا۔ عمیر نے سب کو ایک ہی تاکید کی تھی کہ “سب اپنے گائیڈز کے ساتھ رہیں، کیونکہ بالتورو کی بےکراں وسعت اور اونچے نیچے برفیلی ٹیلے انسان کو راستہ بھلا دیتے ہیں۔ یہاں کھو جانے کا خطرہ ہر قدم پر موجود ہے۔”
سوا سات بجے کے قریب ہمارا قافلہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو کر خاموشی سے پایو کیمپ سائٹ کو الوداع کہنے لگا۔ جانے والوں کے قدم تو آگے بڑھتے ہیں مگر وہ پیچھے یادیں اور اداسی چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ممبرز رخصت ہو رہے تھے پایو کیمپ سائٹ کی فضاء بھی پژمردہ سی دکھائی دینے لگی، گویا وہ خود بھی ہم سے جدا ہونے پر دل گرفتہ ہو گئی ہو۔
آج کی صبح کچھ خاص تھی، دل کو چھو لینے والی اور خوشگوار۔ آسمان پر بادل جیسے خوشی سے جھوم رہے تھے اور سورج اُن کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا پھر رہا تھا۔ کچھ بادل پہاڑوں کی چوٹیوں سے لپٹے ایسے اونگھ رہے تھے گویا طلوعِ صبح سے انہیں کوئی غرض ہی نہ ہو۔ ہمیں گائیڈ احمد کی رہنمائی میں اونچے نیچے اور پتھریلے راستوں پر چلتے ہوئے دو گھنٹے بیت چکے تھے کہ تقریباً سوا نو بجے ہم دنیا کے مشہور و معروف بالتورو گلیشئیر کے دہانے پر جا پہنچے، جہاں سے دریائے برالدو اپنا باقاعدہ سفر شروع کرتا ہے۔
جب میں نے بالتورو پر پہلا قدم رکھا تو دل میں شکر گزاری اور عاجزی کا ایک گہرا احساس اُمڈ آیا۔ یوں لگا جیسے صدیوں پرانا یہ گلیشئیر کسی مہربان بزرگ کی صورت اختیار کر چکا ہو۔ اس نے خاموشی سے میرا ہاتھ تھام لیا ہو اور مجھے بڑی اپنائیت سے اپنی سنگلاخ وسعتوں میں لے جا رہا ہو۔ ابھی ہم نے چند ہی قدم بڑھائے تھے کہ بارش نے اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا۔ ہم نے وہیں رُک کر بیگوں سے برساتیاں نکالیں، اوڑھیں اور پھر دھیرے دھیرے سفر کو جاری رکھا۔ وقت اور قدم شاید ایک ہی رفتار سے رواں تھے۔ خاموش، مسلسل اور ہم آہنگ۔
دس بجے کے قریب ہم “چرسی پتھر” کے پاس سستانے کو بیٹھے۔ جیسے ہی زمین سے رابطہ ہوا نگاہوں کو بھی فرصت ملی۔ اب میں اردگرد کے مناظر کو ذرا ٹھہر کر دیکھ سکتی تھی۔ برف کے اونچے نیچے ٹیلے جن پر مٹی اور چھوٹے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے، جو سکوت کی زبان میں ایک شاندار کہانی سناتے محسوس ہو رہے تھے جس میں بیتی صدیوں کی مہک تھی۔ چند لمحوں کے آرام کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ آہستہ آہستہ ہمارا قافلہ چڑھائی کی طرف گامزن تھا۔ موسم چاہے دل کا ہو یا پہاڑوں کا، کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کچھ دیر پہلے کی بارش اب تیز دھوپ میں بدل چکی تھی۔ مگر مسافر تو موسمی رنگوں کی پروا کیے بغیر رواں رہتے ہیں۔ قدم تھمتے نہیں چاہے سورج دہکے یا بادل برسیں۔
لیکن آج مجھے کسی منزل کی جلدی نہ تھی۔ میری نگاہیں، میرے قدم، میرا دل سب بالتورو کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے۔ دور سے جو سیاہ چٹانیں نظر آتی تھیں، نزدیک آنے پر معلوم ہوتا کہ وہ تو برف کے دیو ہیکل ٹکڑے ہیں، جو دھوپ کی تمازت سے قطرہ قطرہ پگھل رہے تھے۔ ہر کچھ فاصلے پر برف کے چٹخنے اور پتھروں کے لڑھکنے کی آوازیں سنائی دیتیں، جو کبھی میرے دل کو سہما جاتیں اور کبھی قدرت کی ہیبت کا احساس دلاتیں۔ جب میں نظریں اُٹھا کر بائیں جانب دیکھتی تو پگھلتی برف کی تہہ پر مٹی سرکتی دکھائی دیتی اور اس کے ساتھ کئی پتھر لڑھکتے ہوئے برفانی دراڑوں (crevasses) میں جا گرتے۔ ان پتھروں کے نیچے گرنے کی آواز تب آتی جب وہ گہرائیوں کو عبور کر چکے ہوتے۔ ایک طویل وقفے کے بعد ایک زور دار “غڑاپ” جو ان کریویسز کی اتھاہ گہرائی کا پتہ دیتی اور ساتھ ہی دل میں دہشت کی ہلکی سی لہر دوڑا دیتی۔
تقریباً ساڑھے بارہ بجے گائیڈ اقبال ہم سے آ ملا۔ وہ پایو میں انتظامی ذمہ داریوں کے باعث کچھ دیر سے روانہ ہوا تھا۔ تمام گائیڈز اور ٹیم لیڈر عمیر کے درمیان وائرلیس کے ذریعے مسلسل رابطہ برقرار تھا، چنانچہ عمیر کے کہنے پر احمد ہمیں اقبال کے سپرد کر کے خود آگے نکل گیا۔
بالتورو۔۔۔ بلند پہاڑوں میں گھرا، مٹی اور پتھروں سے ڈھکا، صدیوں پرانا وہ برف خانہ ہے جس کا قطرہ قطرہ پگھلتا پانی نجانے کتنی وادیوں، بستیوں اور زندگیوں کو جینے کا سامان فراہم کرتا ہو گا۔ قدرت کی اسی عظیم الشان تخلیق پر ہم گائیڈ اقبال کی رہنمائی میں چٹختی، پگھلتی برف اور اس کے نیچے شور مچاتے پانی کے درمیان ایک اور گھنٹہ چلتے رہے۔ برف کی وہ چٹاخ پٹاخ، جو ابتدا میں دل دہلا دیتی تھی اب کچھ مانوس سی لگنے لگی تھی۔ ہم نے ہر آہٹ پر چونکنا، گھبرا کر دائیں بائیں دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ جیسے ہم بالتورو کے مزاج سے آشنا ہو چکے ہوں۔ ہم کبھی رُکتے، کبھی چلتے، اقبال سے اس کی پرانی ٹریکنگ کہانیاں سنتے اور موقع ملتے ہی تصویریں بناتے رہے۔
پونے دو بجے کے قریب ہم للیگو کیمپ سائٹ پہنچے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہماری ٹیم لنچ بریک کر کے اپنا سامان سمیٹ کر آگے روانہ ہو چکی ہے۔ وہاں صرف دو شناسا چہرے دکھائی دیے، امریکہ سے آئے بابر صاحب اور ان کے صاحبزادے طہٰ۔ ہمارے لیے نور عالم اور ایک سٹاف ممبر لنچ کا سامان سنبھالے منتظر تھے۔ جیسے ہی ہمیں دیکھا، وہ جلدی سے کھانے کو گرم کرنے لگے۔ بھوک، پیاس اور تھکن سے ہمارا حال خستہ تھا۔ اوپر سے دھوپ کی تمازت جلد کو جھلسا رہی تھی اور وہاں نہ کوئی کرسی تھی نہ سایہ، بس ایک مختصر سا پتھریلا میدان۔
اسی دوران میری نظر ایک خوش شکل اور خوش اخلاق خاتون پر پڑی جو قریب ہی ایک پتھر پر بیٹھی اپنے ساتھیوں کے انتظار میں تھیں۔ مختصر سا تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور پشاور سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کنکورڈیا سے واپسی پر تھیں اور اپنی ٹیم میں سب سے تیز رفتار ہونے کی وجہ سے جلد یہاں پہنچ گئی تھیں، جب کہ ان کی باقی ساتھی خواتین گھوڑوں پر سوار آہستہ آہستہ پیچھے آ رہی تھیں۔
جتنی دیر میں ڈاکٹر صاحبہ سے مختصر تعارف مکمل ہوا، نور عالم کھانے پینے کا سامان لیے آن پہنچا۔ قریب ہی پیراشوٹ کی ایک چادر بچھی تھی اور چونکہ بیٹھنے کو اور کوئی جگہ نہ تھی، میں اور میرا ساتھی جوتے اُتار کر اسی پر بیٹھ گئے۔ ابھی دو ہی نوالے حلق سے اُترے تھے کہ قریب ہی تلخ آوازوں کا شور سنائی دینے لگا۔ میں نے سر اُٹھایا تو دیکھا کہ اقبال اور ایک اجنبی شخص کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ اگرچہ ان کی زبان مختلف تھی مگر لہجے اور اشاروں سے فوراً سمجھ آ گئی کہ جھگڑے کی جڑ ہم ہی تھے۔
پوچھنے پر اقبال نے بتایا کہ جس چادر پر ہم بیٹھے تھے، وہ اس شخص کی کیمپ شیٹ تھی جو اُس نے سوکھنے کے لیے بچھائی تھی اور اب اُسے خدشہ تھا کہ ہمارے بیٹھنے سے وہ خراب ہو جائے گی۔ اگرچہ اس کی شکایت بجا تھی، مگر بات کرنے کا انداز اور الفاظ کچھ تلخ تھے۔ اقبال، جو ہمیں اپنا مہمان سمجھتا تھا، اس بات پر برہم تھا اور دونوں کے درمیان گرما گرمی ہو گئی تھی۔ ہم نے فوراً اس شخص سے معذرت کی اور اپنا کھانا پینا لے کر اس کیمپ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ منظر ڈاکٹر صاحبہ خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے ہی ہم اُٹھے انھوں نے بلا تردد اپنا رین کوٹ زمین پر بچھا دیا اور خوش دلی سے کہا: “یہ لیجیے، یہاں بیٹھ جائیں۔” ان کے اس بے ساختہ خلوص اور احترام نے میرے دل کو چھو لیا۔ میں نے شکریے کے ساتھ ان کا رین کوٹ واپس لوٹایا، چند نوالے کھڑے کھڑے کھائے، ڈاکٹر صاحبہ کو دعا دی اور پھر اپنے ساتھی کے ہمراہ دوبارہ سفر کا آغاز کردیا۔
راستے میں ہماری مڈبھیڑ کنکورڈیا سے واپس آتی چند غیر ملکی ٹریکرز کی ٹیموں سے ہوئی۔ ان کے دھوپ میں جھلسے چہرے، تھکن سے بجھی آنکھیں اور سست قدم بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ آنے والے دن ہمارے لیے کس قدر صبر آزما ہوں گے۔
جس راہ پر ہم رواں تھے، وہ کبھی نا معلوم اور غیر ہموار راستہ رہا ہو گا۔ انسانوں نے خطرات سے لڑ کر اسے دریافت کیا اور ہمارے جوانوں نے اپنے خون پسینے سے اسے مسافروں کے قابل بنایا۔ راہ میں ایک اور چیز جس نے مجھے متاثر کیا، وہ پتھروں پر درج اشعار تھے جو بالتورو گلیشئیر پر تعینات کسی فوجی جوان نے دل کی آواز سمجھ کر لکھے ہوں گے۔ یہ اشعار اس لمحے ہمارے حال کی ایسی تصویر تھے کہ پڑھتے ہی تھکن لمحہ بھر کو چھٹ جاتی اور چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آ جاتی۔
شام کے قریب جب گھڑی پونے پانچ کا وقت بتا رہی تھی، تو مجھے نالے کے پار رنگ برنگے خیموں سے سجی خوبورسے کیمپ سائٹ کی جھلک نظر آئی۔ منزل کی یہ پہلی جھلک ایسی تھی جیسے کسی پیاسے کو پانی کی امید دکھائی دے جائے۔ تھکن کے باوجود قدموں میں نئی توانائی دوڑ گئی اور ہمارے چلنے کی رفتار تیز ہو گئی۔ یہاں سے کیمپ تک پہنچنے میں مزید آدھا گھنٹہ لگا۔ اگرچہ آج ہمارا طے کردہ فاصلہ پچھلے دنوں کی نسبت کم تھا لیکن میرا جسم تھکن سے چور تھا۔ کیمپ میں پہنچ کر ساتھیوں سے مختصر ملاقات کے بعد مجھ میں ان کے ساتھ بیٹھنے کی سکت نہ تھی اس لیے میں سیدھی اپنے خیمے میں آ گئی۔ کھانے کے اعلان پر سب میس کیمپ میں جمع ہوئے۔ کھانے کے بعد عمیر نے اگلے دن کی بریفنگ دی اور پھر میں آرام کی غرض سے جلد خیمے میں لوٹ آئی۔
یہ گلیشیئر پر ہماری پہلی رات تھی۔ سردی میں غیر ہموار سطح پر نیند کہاں آنی تھی۔ جیسے ہی کروٹ بدلنے کی کوشش کرتی نیچے پڑے کسی پتھر کی نوک جسم میں جبھتی ہوئی محسوس ہوتی۔ یونہی سوتے جاگتے اور اونگھتے رات گزر رہی تھی کہ اچانک ایک شدید گڑگڑاہٹ کی آواز نے مجھے جگا دیا۔ ایسے لگا جیسے خیمے کے آس پاس لینڈ سلائیڈنگ ہو گئی ہو۔ پہاڑوں سے لڑھکتے پتھروں اور باہر موجود پورٹرز کے شور نے میرا دل دہلا دیا۔ شور سے آنکھ کھل تو گئی لیکن تھکن اتنی گہری تھی کہ خیمے سے باہر نکلنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں کروٹ بدل کر پھر سے نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
جاری ہے۔۔۔