کوہ پیمائی کا سب سے دشوار سمجھا جانے والا چیلنج تاریخ میں پہلی بار سنیچر کو پورا کر لیا گیا جب دس نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
تین مختلف ٹیموں سے تعلق رکھنے والے دس نیپالی کوہ پیماؤں نے گذشتہ رات ایک بجے اپنے سفر شروع کیا اور سنیچر کی شام تقریباً پانچ بجے وہ 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
سیون سمٹ ٹریکس، جن کے ایک سونا شرپا نامی کوہ پیما بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں، نے اس موقع پر ٹویٹ کر کے اس کارنامے کی تصدیق کی۔
دوسری جانب الپائن کلپ آف پاکستان کے مطابق سپین سے تعلق رکھنے والے سیون سمٹ ٹریکس کے معاون لیڈر سرگئے منگوٹ وہ کیمپ ون سے بیس کیمپ کی جانب آتے ہوئے ہلاک ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھیے
کے ٹو سر کرنے کی کوشش میں پولش کوہ پیما زخمی
پہلی بار ایک امریکی خاتون کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب
وہ خاتون جو سردیوں میں بغیر آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنا چاہتی ہیں
کوہ پیما کی تنہا کے ٹو سر کرنے کی ’خودکش‘ مہم ختم
’ یہ اعزاز اپنی قوم اور دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے حاصل کریں گے‘
اس موقع پر الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی مہم جس کا آغاز دسمبر کے وسط میں ہوا تھا اپنے کامیاب اختتام کو پہنچ چکی ہے۔
کرار حیدری کے مطابق 16 جنوری کو تقریباً تین بجے کے قریب عالمی شہرت یافتہ نیپالی کوہ پیما نرمل پرجا اپنے دیگر تین ساتھیوں کے ہمراہ کے ٹو کی چوٹی سے تقریباً 70 میٹر دور اپنے دیگر سات ساتھیوں کا انتطار کرہے تھے جو ان سے چند میٹر کی دوری پر تھے۔
یہ سب دس کے دس نیپالی کوہ پیما ایک ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنا چاہتے تھے۔
کرار حیدری کے مطابق اس موقع پر نرمل پرجا نے کہا کہ ہم یہ اعزاز اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم اور دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے حاصل کریں گے۔
کرار حیدری کا کہنا تھا کہ اس موقع پرنرمل پرجا بہت جذباتی ہورہے تھے۔
کرار حیدری نے بی بی سی کو نرمل پرجا کے بیان سے آگاہ کیا جو کہتے ہیں ’میں نے ہمیشہ یہ خواب دیکھا ہے کہ میں اپنے دیگر نیپالی ساتھیوں کے ہمراہ سردیوں میں کے ٹو کو سر کررہا ہوں۔ یہ خواب حقیقت میں بدلنے کی کتنی خوشی ہوگئی اس کا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا ہے۔‘
ایک اور نیپالی کوہ پیما منگما گالجے نے سردیوں میں کے ٹو کی فتح کا رسمی اعلان ہونے سے قبل فیس بک پوسٹ میں کہا کہ ہم لوگ صرف دو سو میٹر کی دوری پر ہیں۔ ہم یہ اعزاز نیپال اور مہم جوؤں کے لیے حاصل کریں گے۔
کے ٹو پر پہچنے والے منگما گالجے نے سردیوں میں سات ہزار میٹر کی بلندی کا ریکارڈ توڑنے پر اپنے فیس بیک پیغام میں کہا کہ ہم اپنی قوم کو قابل فخر بنائیں گے۔ ’ہم کے ٹو کو پہلی مرتبہ سردیوں میں فتح کریں گے اور یہ ہماری قوم کے لیے ہوگا۔‘
کے ٹو ۔۔۔ جسے سر کرنے میں ایک صدی لگی
قراقرم کے انتہائی شمالی کنارے پر پاکستان اور چین کے سرحدی مقام پر واقع ہے اور درحقیقت اس مقام پر کوئی واضح سرحدی تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان اور چین کے درمیان کے ۔ ٹو کو ہی سرحد مانا جاتا تھا۔
سکردو سے تقریباً 125 میل دو سو کلومیٹر یا 104 کلومیٹر فضائی سفر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کا طول بلد 35.52 اور عرض بلند 76.30 ہے۔
کے ٹو کا راستہ سکردو شہر سے ہوتا ہوا شگر وادی کے اندر سے گزرتا ہے اور آخری گاؤں اشکولی میں سڑک کا اختتام ہوتا ہے جہاں سے پیدل سفرکا آغاز ہوتا ہے۔
یہ سفر بالتورو گلیشیئر پر سے ہوتا ہوا آٹھ سے د س دن میں گوڈون آسٹن گلیشیئر کے کنارے پرواقع کے ٹو پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
کے ٹو کی چوٹی 8611 میٹر کی بلندی کے ساتھ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کو ’سیویج ماؤنٹین‘ کے نام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
کے ٹو کے نام کی وجہ لفظ ’K‘ قراقرم Karakoram کے پہلے حرف سے لیا گیا ہے اور ٹو کا مطلب ہے قراقرم کی چوٹی نمبر 2۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سب سے پہلے 1856-57 میں اس خطے میں جارج منٹگمری کی سربراہی میں ایک مہم آئی تو انھوں نے ایک اونچی چوٹی کو کے۔ ون (K-1) کا نام دیا جو کہ دراصل بعد میں مشربرم 7821 کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس سروے ٹیم کے ممبر ہنری ہاورشم گوڈون آسٹن نے مزید تحقیق میں ایک اور اونچی چوٹی کو کے ٹو کا نام دیا۔
کچھ عرصہ تک ایک انگریز محقق کی وجہ سے اسے امریکی پہاڑ بھی کہا جاتا رہا ہے پھرگوڈون آسٹن کی تحقیق کے بعد اسے گوڈون آسٹن پہاڑ کہا جانے لگا اور سروے مکمل ہونے کے بعد سرکاری طور پر کے ٹو کے نام سے پکارا جانے لگا۔
یک صدی تک کے ٹو کو سر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اور کئی راستوں کو اختیار کیا گیا مگر کامیابی کسی کے حصے میں نہ آئی۔
دسیوں کوہ پیماﺅں نے اپنی جانیں گنوائیں اور اس برفانی دنیا میں برف ہوگئے تاوقتیکہ 1954 کا سال شروع ہوا اور وہ 31 جولائی 1954 کو سنیچر کا دن تھا۔
شام چھ بجے کا وقت تھا جب کے ٹو کی چوٹی پر پہلے انسانی قدم پہنچے اور خوش نصیب کوہ پیما تھے دو اطالوی، 29 سالہ لینو لیسیڈلی اور 40 سالہ اچیلی کوماگنونی۔
یوں تقریباً ایک صدی پہلے شروع ہونے والا کے ٹو کی دریافت وتحقیق و کوہ پیمائی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس تاریخی کہانی کو بعد میں مہم کے سربراہ پروفیسر ڈیزیو نے کتابی شکل میں Victory Over K-2 کے نام سے بھی شائع کیا۔
سرد موسم میں سر کرنے میں مزید چھ دہائیوں سے زیادہ انتظار
2014 تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 345 کوہ پیما کے ٹو سر کر چکے ہیں جن میں سے اٹھارہ خواتین بھی شامل ہیں اور تقریباً 86 کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔
کے ٹو کو سر کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما واپس اترتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جو کہ کسی بھی پہاڑ پر سب سے زیادہ جان دینے کا ریکارڈ ہے۔
2012 وہ سال تھا جب کسی ایک سال میں سے زیادہ 30 کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا۔
تاہم تصدیق شدہ اور حتمی تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کتنے کوہ پیما چوٹی کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔