فیصل آباد (نیشنل ٹائمز) زرعی افرادی قوت شہری کاری کی وجہ سے آنے والی تبدیلی کو محسوس کر رہی ہے تاہم یہ تبدیلی کاروبار کے نئے مواقع کھولے گی ماہرزراعت اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے استادڈاکٹر لیاقت کا کہنا ہے کہ شہر وں کا پھیلاؤ خطرناک ہے یہ تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کو متاثر کر رہی ہے اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جن کے سروں پر غذائی تحفظ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ویلتھ پاک سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہاکہ شہر آہستہ آہستہ زرخیز زرعی زمین کو نگل رہے ہیں اور کسان اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ وہ اپنی روزی کو مستقل طور پر کھو دیں گے انہوں نے کہا کہ زمین ہر کسان کے لیے فخر اور خوشی ہے تاہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے ان کا فائدہ اٹھایا اور انہیں ان کی زمینوں کے لیے منافع بخش قیمتوں کی پیشکش کی اور زیادہ تر کاشتکار جنہوں نے اپنی زرعی زمینیں فروخت کیں وہ حقائق کا پتہ لگانے میں ناکام رہے ہاؤسنگ کالونی بنانے والوں نے بڑی مقدار میں زرعی اراضی چھین لی جو اب ویران نظر آرہی ہیں زمین کے یہ ٹکڑے نہ تو زراعت کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی مکان تعمیر کیا گیا ہے زرعی زمین کی کمی محنت کشوں کو سبز چراگاہوں کی تلاش میں شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کررہی ہے جس سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کرنے پر پابندی عائد کرے اور ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے غیر پیداواری زمینوں کا تعین کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ زرخیز زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹیز اور صنعتی علاقوں میں تبدیل کرنا پاکستان اور اس کے عوام کے لیے سود مند نہیں ہو گا. ماہر معاشیات محمد عارف نے بتایا کہ بہت سے لوگوں کو اپنے سر پر چھت کی ضرورت ہے تاہم اس مقصد کے لیے ایک ٹھوس کوشش کی ضرورت تھی کیوں کہ منصوبہ بندی کے بغیر تیزی سے شہروں کا پھیلاؤزرعی پیدوار اور لائیواسٹاک میں کمی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بھی کئی گنا بڑھا رہا ہے یہ صورت حال زرعی شعبے میں ہنر مند کارکنوں کی کمی کا باعث بن رہی ہے جس سے زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے ہمارے نوجوان پہلے ہی زراعت میں دلچسپی کھو رہے ہیں اور خاندانی دبا ؤکے باوجود فارم چھوڑ رہے ہیں اور زمینوں کو ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کرنے سے پریشانی میں مزید اضافہ ہو گا نوجوان یا تو بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں یا شہروں میں نوکریوں کے حصول کی کوششو ں میں لگے ہیں یہ صورتحال زرعی افرادی قوت کو کم کر دے گی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ حکومت دیہی علاقوں میں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ شہری کاری کے رجحان کو روکا جا سکے دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کریں گے بلکہ شہری علاقوں پر بوجھ بھی کم کریں گے۔
سماجی امور کے ماہر اور ترقی پسند کسان امجد علی نے کہا کہ حکومت شہری زراعت متعارف کروا کر شہری کاری کے اثرات کو کم کر سکتی ہے کاشتکار برادری کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ایک جدید طریقہ کاشتکار شہروں میں خوراک اگا کر شہری مارکیٹ کی مانگ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں شہرؤں کا پھیلاؤ کوئی بری چیز نہیں ہے تاہم اگر اسے موثر طریقے سے سنبھالا اور ہموار نہیں کیا گیا تو یہ ایک گڑبڑ پیدا کر سکتا ہے ہمیں اپنے کسانوں کو بااختیار بنانا ہوگا خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی سمت بدلنے اور پائیدار اور منافع بخش کاشتکاری کے طریقوں کو اپنانے کے لیے نجی شعبہ آہستہ آہستہ زرعی زمینیں ہڑپ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جدید کاشتکاری کے طریقے اس شعبے کو بچا سکتے ہیں اور افرادی قوت کے لیے ملازمتوں کو یقینی بنا سکتے ہیں ہمیں تربیتی پروگرام شروع کرنے چاہئیں اور کاشتکاروں کو ان کی دہلیز پر جدید علم فراہم کرنا چاہیے جب کسان کھیتی باڑی کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو وہ اپنی زرعی زمینوں کو فروخت کرنے سے گریز کریں گے صرف کسانوں کی مضبوط مالی پوزیشن ہی زرعی زمینوں کی تبدیلی کو بچا سکتی ہے انہوں نے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر پر زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور دیہی ترقی اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے منصوبے شروع کریں تاکہ کسانوں کو شہری منڈیوں سے جڑے رہنے اور نئے کاروباری منصوبوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے۔