لاہور ( نیشنل ٹائمز) ملک میں 9 روپے کی لاگت پر پیدا کی جانے والی بجلی عوام کو 80 روپے میں فرخت کیے جانے کا انکشاف، گزشتہ ماہ جولائی میں بجلی کی کل اوسط پیداوار 20 ہزارمیگاواٹ رہی، 35 فیصد بجلی یعنی 7000 میگاواٹ ہائیڈل ذرائع سے حاصل کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سابق نگراں وزیرتجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے سوال اٹھایا ہے کہ جولائی میں بجلی کی لاگت 9روپے یونٹ رہی، تو بل کیسے 80 روپے فی یونٹ تک پہنچ رہے ہیں؟ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ جولائی میں بجلی کی کل اوسط پیداوار 20000 میگاواٹ تھی جس میں سے 35 فیصد بجلی یعنی 7000 میگاواٹ ہائیڈل ذرائع سے حاصل کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جولائی میں بجلی کی پیداواری لاگت 9روپے تین پیسے فی یونٹ رہی، جب ایندھن کی قیمت 9.03 روپے فی یونٹ ہے تو بل کیسے 40، 60، یا 80 روپے فی یونٹ تک پہنچ رہے ہیں؟ سابق نگراں وزیرتجارت نے کہا کہ پاکستان کے پاس 43,000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی پیداوارکی صلاحیت ہے، لیکن بنیادی مسئلہ مجموعی بدانتظامی کے ساتھ پیدا نہ ہونے والی بجلی کے استعدادی چارجز کی ادائیگی ہے، کیپسٹی چارجز سے رہائشی، تجارتی، صنعتی، اور زرعی تمام صارفین متاثر ہو رہے ہیں، پاکستان صرف اس بجلی کی ادائیگی کر سکتا ہے جوحقیقت میں پیدا ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت کو تمام صارفین رہائشی، کمرشل، صنعتی اور زرعی کو انصاف دینا ہے،اب سب دم توڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بلومبرگ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مہنگی بجلی نے عوام کی معاشی کمر توڑ ڈالی، پاکستان میں بجلی کی کھپت 4 سال کی کم ترین پر آ گئی، 2021 سے اب تک بجلی کے نرخوں میں 155 فیصد اضافہ ہوا۔ بلومبرگ کی جانب سے پاکستان میں مہنگائی خاص کر مہنگی بجلی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ آئی ایم ایف شرائط پر عملدرآمد کیلئے پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کیلئے بجلی میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، 2021 سے پاکستان میں اب تک بجلی کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ ہو چکا۔ جبکہ صرف گزشتہ ماہ جولائی میں رہائشی صارفین کے لیے بجلی کی اوسط فی یونٹ قیمت میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے شہریوں کی آمدن کا سب سے بڑا حصہ اب بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔ یوں پاکستان میں توانائی کا بحران درد سر بن چکا، جبکہ مہنگائی میں اضافے خاص کر بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی کھپت 4 سال کی کم ترین سطح پر آ چکی۔