ماں جی کے بغیر پہلی عید

عابد حسین قریشی

گزشتہ ماہ اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر ایک کالم لکھا” کہ کیا ماں کبھی مر بھی سکتی ہے۔” کالم لکھنے والا بھی رویا اور پڑھنے والوں کو بھی رلایا۔ کہ اس کالم میں ہر شخص نے اپنی ماں کا عکس دیکھا۔ عید کا تہوار ہمارے ہاں مزہبی اور سماجی طور پر اتنا اہم اور خوشگوار ہوتا ہے، کہ اسے اپنوں میں منانے کے لئے لوگ سینکڑوں میل سفر کرکے اپنے آبائی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ سروس جائن کرنے سے پہلے بچپن اور نوجوانی کی ہر عید گاؤں میں ہی گزرتی اور ماں کی محبتوں کا لمس ہر لحظہ محسوس ہوتا۔ وسائل محدود مگر چاہتیں لا محدود،ماں کی ممتا کی بھینی بیھنی خوشبو گھر میں ہر سو پھیلی ہوتی۔کیا ستم ہے، کہ جب والدین قریب ہوتے ہیں، تو ہمیں انکی قربت اور موجودگی کا وہ احساس ہی نہیں ہوتا جو انہیں کھونے کے بعد غم و اندوہ کے سیل بیکراں میں رہتے ہوئے ہوتا ہے، بلکہ بیتتا ہے۔ عید پر کپڑوں کا نیا جوڑا اور ماں جی سے ایک روپیہ ملنا ہی بچپن کی عید کی سب سے بڑی عیاشی ہوتی۔ عید کا دن اپنے ساتھی سنگھیوں کے ساتھ گھر سے باہر ہی گزرتا۔ پھر جوانی کی دہلیز پار کرتے کرتے عید کے تہوار کے کچھ سماجی پہلوؤں پر بھی نظر پڑنا شروع ہوئی۔ جوڈیشل سروس کے پہلے 25/26 سال تو عید کی ساری چھٹیاں ہی گاؤں میں گزرتیں۔ سروس کے بہت شروع کے سالوں میں ہی والد محترم ہمیں داغ مفارقت دے گئے، تو والدہ کے وجود کی اہمیت دو چند ہوگئی۔ والدہ کے ساتھ عید منانے کے لئے صوبہ کے کسی بھی دور دراز مقام سے بر وقت گاؤں پہنچنا اور گھر میں داخل ہوتے وقت ان کا والہانہ استقبال کا انداز، ماں جی کے ہاتھوں سے بنی سوئیاں اور دیگر پکوان، انکی مہک اور لمس آج بھی دل و دماغ کے نہاں خانوں میں پوری آب و تاب سے زندہ ہے۔ مگر اب کے بار پہلی عید ماں جی کے بغیر تھی۔ پہلے سوچا کہ عید کے تیسرے روز ماں جی کا چہلم ہے، ایک ہی دفعہ لاہور سے چلیں گے، مگر نجانے کیسے رات بھر سو ہی نہ سکا، صرف یہ سوچ کر کہ عید پر حسب معمول ماں جی میرا انتظار کر رہی ہوں گی اور اگر میں عید والے روز گاؤں نہ گیا تو انہیں مایوسی ہوگی۔ لہزا عید والے روز ہی جانے کا پروگرام بنا لیا۔ مگر فوری خیال وارد ہوا، کہ اس عید پر جب اپنے آبائی گھر میں داخل ہونگا، تو وہاں ماں جی تو موجود نہیں ہونگی، میری نمناک آنکھوں میں اب گھر کا منظر تھا، وہ جس صوفے پر بیٹھ کر میرا انتظار کر رہی ہوتیں، جس وارفتگی سے مسکراتے ہوئے وہ میرا ماتھا چومتیں،یہ سب کچھ اب کہاں ہوگا۔ میرے لئے تو یہ خیال ہی سوہان روح تھا، کہ اب کے بار گھر ماں جی کے بغیر ہوگا۔ وہاں سب کچھ ہوگا، مگر ماں نہیں ہوگی۔ ماں کے بغیر ویسے گھر میں رہ بھی کیا جاتا ہے،۔خصوصاً ہمارے جیسے پردیسیوں کے لئے۔ مگر میں نے تو خود یہ لکھا تھا کہ کیا ماں کبھی مر بھی سکتی ہے۔ تو پھر جب گھر میں داخل ہوتا ہوں تو ماں جی کو اسی صوفہ پر بیٹھا ہوا پاتا ہوں، اور ان سے ہمکلام ہوتا ہوں۔ماں جی کی آواز کا آہنگ اور انکے نرم و گداز ہاتھوں کا تصوراتی لمس محسوس کرتا ۔آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کو بیقرار ہیں، جس گھر میں ماں کے ساتھ ساٹھ سال سے زائد شعوری عرصہ کی عیدیں منائیں، آج وہ گھر ماں کے بغیر سونا سونا سا لگ رہا تھا۔ سبھی عزیز و اقارب وہاں اکٹھے تھے۔ برادرم خالد قریشی اور انکے بچے پہلے سے زیادہ خیال رکھ رہے تھے، کھانے پینے کو بھی سب کچھ تھا، مگر اماں جی کے یہ الفاظ کے کچھ اور کھا، یہ بھی کھا لے،اور زبردستی میری پلیٹ میں کچھ نہ کچھ ڈالتے جانا، اور کیا ڈرائیور نے کھانا کھا لیا ہے۔ ماں جی کو مجھ سے زیادہ میرے ڈرائیور اور میرے بچوں کی فکر بھی ہوتی۔ عید کا سارا دن پلک جھپکتے گزر جاتا۔ بوقت رخصت مزید رکنے کا اصرار کرتیں اور پھر بڑے بوجھل دل کے ساتھ دروازہ سے باہر تک الوداع کرتیں۔ کیا وقت تھا، کیا کیا یاد کریں، ماں کی موجودگی میں گزرا ہر لمحہ ہی یادگار ہے، ناقابل فراموش ہے، خوش کن اور خوش نما ہے۔ مگر وقت کو کون روک سکا ہے۔ جانے والے کب واپس آتے ہیں۔ ماں جی کی لحد پر بھی حاضری عید والے روز دی۔ جو آنسو گھر میں روک رہا تھا وہ قبر پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہی جل تھل ہو گئے۔ روتے روتے ماں جی کے لئے دعا بھی کی اور ہمکلامی کا شرف بھی ملا اور ماں جی کو اپنا حال دل بھی سنایا کہ آپ کے جانے کے بعد ہر پل بیقراری اور افسردگی میں کٹ رہا ہے۔
میرے والد کے قریب ہی اور میرے دادا محمد سرور نمبردار مرحوم کے قدموں میں ماں جی کی قبر گلاب کے تازہ پھولوں سے لدی تھی۔ لگتا تھا کہ قبر کے اندر ماں جی انہی پھولوں کی طرح ترو تازہ اور راحت و آسودگی میں ہونگی۔ ماں جی کی تربت پر کھڑے میاں محمد بخش کا یہ شعر یاد آیا۔ عیداں تے شبراتاں آئیاں، سارے لوکی گھراں نو آئے۔ او نیئں آئے محمد بخشا جہیڑے آپ ہتھیں دفنائے۔



  تازہ ترین   
تجارتی جنگ میں چین کا ایک اور وار، امریکی مصنوعات پر عائد ٹیرف 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد کردیا
پاکستان کا نئے ٹیرف سے متعلق مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ
عبدالمالک بلوچ سے ملاقات، نواز شریف کی بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی یقین دہانی
عمران خان سے ملاقات کا معاملہ، بیرسٹر گوہراور سلمان اکرم کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ
میانمار کے کیمپوں سے مزید 21 پاکستانی بازیاب
ملتان: ایل پی جی باؤزر دھماکے میں 26 افرادکی ہلاکت، 12 ملزمان ضمانت خارج ہونے پرگرفتار
اگلے برس پاکستان کی شرح نمو 3 فیصد تک پہنچنے کی توقع
وزیراعظم کا دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کیلئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار





  ملتی میڈیا   
پاکستان نیوی کے چیف نے نویں کثیر القومی بحری مشق “امن” میں شریک غیر ملکی جہازوں کا دورہ کیا۔ | آئی ایس پی آر
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا خطاب | “بریتھ پاکستان” عالمی ماحولیاتی کانفرنس 07-02-2025
آرمی چیف نے مظفرآباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ | آئی ایس پی آر
کشمیر ایک زخم | یومِ یکجہتی کشمیر | 5 فروری 2025 | آئی ایس پی آر
آخری لمحات شہید اسمائیل ہنیہ