عابد حسین قریشی
نیرج سکسینہ نے امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی میں جب وہ جیت کے سفر پر گامزن تھا تو یہ کہہ کر پروگرام سے آوٹ ہوگیا کہ وہ دوسروں کو جو انتظار میں بیٹھے ہیں اور شاید زیادہ ضرورت مند بھی، انہیں موقع دینا چاہتا ہے۔ اس نے جس قناعت ، ایثار اور احساس کا مظاہرہ کیا، اسی سے تو زندگی کا حسن عبارت ہے۔ وہ شاید مالی طور پر اتنا آسودہ نہ ہو ، مگر ذہنی اور قلبی طور پر یقیناً اتنا سیر اور قناعت پسند تھا کہ اس نے اپنے مفاد پر دوسرے غرض مندوں کو ترجیح دی۔ ہم نفسا نفسی اور افرا تفری کے جس دور میں رہ رہے ہیں ، یہاں اس طرح کے چھوٹے موٹے gestures بھی دل کو موہ لیتے ہیں ، حالانکہ ہماری اسلامی تاریخ میں تو ایسی تابناک مثالیں تھیں ، کہ جنگ میں شدید زخمی ہونے والے پانی کی بوند کو ترستے لب مگر پانی خود پینے کی بجائے اگلے زخمی بھائی کو پلانے پر اصرار کیا جاتا تھا اور اس عمل میں جان بھی جان آفرین کے سپرد کر دی جاتی۔اپنے بھائیوں اور قرابت داروں کے لئے ایک تڑپ اور احساس ہوتا تھا۔ لوگ اپنے مفادات کو اپنے رشتوں کے تقدس اور مان پر قربان کر دیتے تھے۔ مگر اس وقت معاشرہ میں جو جزباتی ہلچل ہے، جو معاشی ناہمواریاں اور معاشرتی استحصال ہے، اس نے اکثر اعلٰی انسانی قدروں کو روند دیا ہے۔ اور لوگ خود غرضی اور لالچ ، دھونس و دھاندلی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ہماری عدالتوں میں سب سے زیادہ مقدمات بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے مابین چل رہے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ قناعت سے دوری ہے۔ مال و دولت سے آسودگی ضرور ملتی ہے، مگر قناعت کا تعلق دل سے ہے اور یہ دل والوں کو ہی ملتی ہے۔ قرآن پاک میں انسان کو کبھی ناشکرا، کبھی تھوڑ دلا، کبھی خود غرض اور کبھی جلد باز کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ انسان دنیا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ یہ جلد مل جاتی ہے، مگر آخرت کی فکر نہیں کرتا کہ جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ 25 ویں پارہ کی سورہ الشورای کی آیت نمبر 20 میں کچھ یوں فرمایا ہے، “” جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے، اسکی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں،اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے، اسے دنیا ہی میں سے دے دیتے ہیں،مگر آخرت میں اسکا کوئی حصہ نہیں ہے۔”” اپنی دنیا بہتر بنانے میں کوئی ہرج نہیں، مگر آخرت کو بھول کر یہ خسارے کا سودا ہے۔ اللہ تعالٰی تو ہر وقت اپنے بندوں پر مہربان ہے اور لطف و کرم کی برسات کئے رکھتا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اور جتنا چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ وہ صرف انکو ہی رزق نہیں دیتا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں، وہ تو ساری مخلوق کا رب ہے۔ کسی کو رزق دیکر ، کسی کو علم دے کر، کسی کو حسن صورت سے نواز کر، کسی کو جاہ و حشمت اور عہدہ و منصب اور طاقت دیکر، کسی کو سیم و زر کے انبار بخش کر، اور کسی خوش نصیب کو قناعت کی دولت سے مالا مال کرکے اپنی قدرت کے کرشمے ظاہر کرتا ہے۔ ساری دنیا کی دولت، اختیار و اقتدار ایک طرف اور قناعت کی آسودگی اور راحت ایک طرف۔ قناعت آنے کے بعد نہ بندہ دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے، نہ تذلیل و تحقیر کا مسافر بنتا ہے۔ نہ بے چینی اور جھنجھلاہٹ، نہ مسابقت و مقابلہ بازی۔ غرض سکون و آشتی، اور جسے سکون قلب مل گیا اسے اور کیا چاہیے۔ اس دور پر آشوب میں شاید ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی آسودگی، کوئی راحت، کوئی خوشی نہیں۔ اس وقت اس معاشرہ میں ڈیپریشن اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ذہنی سکون قناعت و شکر گزاری میں ہے۔ اللہ کے ذکر اور اسکی مخلوق کی خدمت اور اسکی فکر میں ہے۔